قرآن مقدس اور احادیث کا تارک کہتا وہ خود ہی تارک ہوجائے گا۔ قوانین اسلام کا تصدیق کرنے والا ہوں اور وہ شخص ہوں جو بموجب گذ شتہ کتب مقدس آیا ہوں میں گمراہ نہیں ہوں۔ میں مہدی ہوں جو ہدایات دیا گیا ہے۔ میں کافر نہیں ہوں میں ایمان لانے والوں میں اول اور مسلمان ہوں۔ اور جو کچھ میں کہتا ہوں وہ بموجب وحی کے ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ قرآن شریف اور رسول پاک پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کو میرے دعوے مجھ سے سن کر اپنی زبان قابو میں رکھنی چاہئے۔لیکن جو شخص بدزبان اور گستاخ ہے اس کا کوئی علاج نہیں۔ اللہ ہی اس سے سمجھے گا۔‘‘ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۱ء کو نجف کے ایک عرب سید عبداللہ نے جو قادیان سے اپنے ملک کو جانے والا تھا۔ مسیح موعود سے پوچھا کہ میں کسی غیر احمدی کے پیچھے جو مسیح موعود کے دعاوی اور تعلیم سے واقف نہ ہو نماز پڑھ سکتا ہوں۔ ‘‘تو اس نے جواب دیا ایسے لوگوں سے اللہ کا کلام جو مجھ پر نازل ہوا ہے بیان کرو۔ اگر وہ اس کو مان لیں اور ایمان لے آئیں تو اس کے ساتھ تم نماز ادا کرسکتے ہو۔ ورنہ نہیں۔‘‘
ان صاحب (عرب نجف) نے پھر کہا کہ ان کے ہم وطن تند مزاج اور شیعہ مذہب کے ہیں۔ ’’مسیح موعود نے کہا۔ ’’تو اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردے جو ان لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ جن کا حساب اس کے ساتھ پاک صاف ہے۔ کتاب مقدس بتاتی ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے اور انکار کرتے ہیں وہ مستحق عذاب ہیں۔ اس لئے میرے شایان نہیں ہے کہ میرے متبعین میں سے کوئی فرد بھی ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھے۔ کیا کوئی زندہ شخص مردوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔؟ تو یاد رکھو کہ جیسا اللہ نے مجھ کو بتایا ہے۔ تمہارے لئے حرام قطعی حرام ہے۔ کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھو۔ جو مجھ کو کافر کہتا ہے۔ یا میرا مکذب ہے یامیری طرف سے متردد ہے۔
کھلی چٹھی بنام ہزاکسیلنسی غلام صدیق خاں
سفیر حکومت افغانستان متعینہ جرمنی
جناب من! چونکہ میں عرصہ دراز سے افغان قوم کا بوجہ اس کی بہادرانہ اور اعلیٰ حب وطن خصوصیات کے جو اپنے ملک اور عزت کی مخالفت میں بمقابلہ سلطنت برطانیہ کے بے شمار فوجوں اور سازشوں کے میدان جنگ میں ظہور پذیر ہوئیں۔ ہمدرد اور مداح ہوں۔ اس لئے میں آپ کی توجہ ایک ایسے معاملہ کی طرف مبذول کرانے کی جرأت کرتا ہوں جو اگر جلد صاف نہ کیا گیا۔ تو وہ ضرور غلط فہمی پیدا کرانے کا باعث ہوگا اور مسلمانوں کی نظر میں آپ کی حکومت کی نیک