زندوں کو مارنے کو مسیح الزمان ہوئے
۳… غیر احیاء کے معنے ’’زندہ بھی نہیں ہیں‘‘ کیسا بھونڈا اور غلط ترجمہ ہے جو بتقلید مرزا لکھا گیا ہے۔ اس ’’بھی‘‘ نے مرزا کے ساتھ مرزائیوں کی بھی لیاقت ظاہر کردی ہے۔ جب کہہ دیا گیا کہ مر چکے ہیں تو پھر اس فضول تکرار کی ’’زندہ بھی نہیں ہیں۔‘‘ کیا ضرورت؟ کیا ان دونوں جملوں میں کوئی فرق ہے؟ اﷲ کا کلام بلاغت نظام ایسی لغویات سے پاک ہے۔ اموات کے بعد غیر احیاء اس لئے ذکر کیا گیا ہے۔ کہ ان اصنام جماد کی حقیقت اصلیہ ظاہر ہوجائے کہ وہ علی الاطلاق مردہ ہیں۔ ان کو حیٰوۃ کی ہوا بھی نہیں لگی نہ پہلے کبھی نہ اب (ابو السعود)
۴… ’’وما یشعرون ایان یبعثون‘‘ کا مطلب تو یہ ہے کہ ان (اصنام اموات) کو اس کا بھی شعور (علم) نہیں کہ ان کے پوجنے والے کب اٹھائے جائیں گے۔ (جلالین وفتح البیان وغیرہ) بلکہ ان سے بہتر تو ان کے عابد ہیں کہ ان کو علم وشعور اور حیوٰۃ تو حاصل ہے۔
کافران از بت بے جان چہ توقع دارید
باری آن بت بہ پرستید کہ جانے دارد
پانچویں آیت
’’قال شرکائہم ما کنتم ایانا تعبدون (الیٰ) ان کنا عن عبادتکم لغافلین (یونس:۲۸،۲۹)‘‘ معبود کہیں گے کہ تم تو ہماری پرستش نہیں کرتے تھے(تا) ہم تو تمہاری عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔ اگر وہ زندہ ہوں تو ان کو اس شرک کا بخوبی علم ہوگا۔ اگر علم نہ بھی ہو تو دنیا میں دوبارہ آنے کے بعد ان کو علم یقینی ہوجائے گا۔ پھر وفات پاکر خدا کے حضور کیا خلاف واقعہ بیان کریں گے۔ کہ مجھے پرستش کی خبر نہیں؟ ایسا جھوٹ نبیوں کی شان کے خلاف ہے۔ آہ ملخصا (ص۶) ذرا یہ تو فرمائیے کہ نبی باوجود اپنی پرستش سے بے خبری کا اظہار کرنے کے یہ بھی کہے گا ما کنتم ایانا تعبدون؟ یعنی تم تو ہماری پرستش نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ یقینا ان کی پرستش ہورہی ہے جس کا آپ کو بھی اقرار ہے۔ تو کیا ایسا جھوٹ نبیوںکی شان کے خلاف نہیں؟ اور کیا ان کا یہ خلاف واقعہ بیان’’تم ہم کو نہیں پوجتے تھے۔‘‘ صحیح ہوگا؟ اور سنئے فرشتے بھی تو پوجے جاتے تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ پس شرکاء میں بھی وہ داخل ہوئے۔ تو کیا وہ بھی خلاف واقعہ بیان کریں گے کہ ہم کو پرستش کی خبر نہیں یا وہ بھی سب فوت ہوچکے ہیں؟ کیونکہ اگر وہ زندہ ہوں تو ان کو اس شرک کا بخوبی علم ہوگا‘