نہیں لے سکتا۔ پس ثابت ہوگیا کہ ابن جریرمیں جو قال الحسن قال رسول اﷲﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت…الخ بالسند منقول ہے اس کے راوی حضرت علیؓ ہیں۔
کتب تفاسیر
حدیث مذکور کی بحث میں مجاہد صاحب کتب تفاسیر کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ حالانکہ مرزا قادیانی نے خود اکابر مفسرین سے استناد کیا ہے۔ (تحفہ گولڑویہ ۹۴، خزائن ج۱۷ ص۲۴۸)
مجاہد صاحب نے نقول حوالہ میں بڑی خیانت کی ہے چنانچہ پہلے نمبر میں قاضی شوکانی کی کتاب فوائد مجموعہ کے ص۱۱۱ سے امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’تین قسم کی کتابیں بے اصل ہیں من جملہ ان کے کتب تفاسیر بھی۔ (ص۱۸)‘‘ اور آگے کی تمام عبارتیں کھا گئے۔ ہذا محمول علی کتب مخصوصۃ فی ہذہ المعانی الثلاثۃ غیر معتمد علیہا…الخ (ص۱۱۱) یعنی امام احمد کی مراد خاص کتابیں ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاتاپھر آگے اس کی تصریح بھی کردی ہے۔ یعنی تفسیر کلبی تفاسیر مبتدعین تفاسیر صوفیہ، تفسیر ثعلبی، تفسیر واحدی، تفاسیر روافض وغیرہ، امام احمد کی مراد محدثین کی تفاسیر نہیں ہے جو بالسند حدیثیں ذکر کرتے ہیں۔ ورنہ امام احمد خود ایک مبسوط تفسیر کے مصنف ہیں۔ پھر تو وہ اپنے ہی قول سے ملزم ہوں گے۔ اور ان کی تفسیر خود ان کے ہی قول سے بے اصل ہوجائے گی۔ اسی طرح صاحب فوائد مجموعہ بھی مصنف تفسیر فتح القدیر ہیں۔ جو مصر میں طبع ہوچکی ہے۔ اسی طرح جلال الدین سیوطی جن کا قول نمبر۳ میں لکھا ہے دو دو تفسیروں کے مؤلف ہیں۔ یہ لوگ گویا خود اپنی تالیفات کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔ ولا یقول بذلک الامن سفہ نفسہ۔ آگے نمبر۲ میں جو علامہ ابن خلدون کاقول لائے ہیں اس سے نمبر۱ کی تردید خود بخود ہوجاتی ہے۔
اس طرح پر کہ نمبر۱ میں تو کتب تفاسیر کو بالکلیہ بے اصل ٹھہرایا اور نمبر۲ میں ان کتب میں اعلیٰ ومقبول باتوں کا ہونا بھی مان لیا۔ وہل ہذا الاتھافت۔ پھر ابن خلدون نے یہ بھی تو لکھا ہے جسے مجاہد صاحب ہضم کرگئے۔ فکتب الکثیر من ذلک ونقلت الآثار الورادۃ فیہ عن الصحابۃ والتابعین وانتہیٰ ذلک الی الطبریٰ (ج۱ ص۳۶۶) یعنی اکثر سلف نے تفسیریں لکھیں اور ان میں جو حدیثیں صحابہ سے مروی اور آثار تابعین سے منقول ہیں ان کتابوں میں لکھی گئیں اور یہ الزام محدث ابن جریر طبریٰ پر منتہی ہوا۔ ہم نے بھی تو حدیث ان عیسیٰ لم یمت ابن جریر طبریٰ سے ہی نقل کی ہے جس کی تعریف علامہ ابن خلدون بھی فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد مجاہد صاحب نے نمبر۳ میں جو جلال الدین سیوطی کی اتقان سے نقل کیا ہے۔ ’’انہوں (مفسروں) نے اسنادوں کو ترک کردیا (تا) نقائص پیدا ہو گئے۔ (ص۱۸) یہ ان تفسیروں کی بابت ہے۔ جن