مطابق میعاد مقررہ کے اندر ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو وبائی ہیضہ میں مبتلاء ہوئے اور وہ فوت ہوگئے۔ جناب ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب ان کے بعد سالہا سال زندہ رہے۔ اس ٹریکٹ کے لکھنے والے نے انہیں ۱۹۲۸ء تک خود دیکھا اور ان کے لیکچر سنے۔
حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسریؒ سے مرزا قادیانی کا آخری فیصلہ
’’میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے… اگر طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریوں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کذاب ہوں۔ تو اے میرے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور اگر مولوی ثناء اللہ صاحب حق پر نہیں تو میری زندگی میں اسے نابود کر انسانی ہاتھوں سے نہیں طاعون ہیضہ وغیرہ سے۔ جو تیری نگاہ میں در حقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں دنیا سے اٹھالے۔ میرے مالک تو ایسے ہی کر۔ آمین ثم آمین۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)
اللہ اکبر! مر زا قادیانی کی دعا قبول ہوگئی۔ مفسد اور کاذب مفتری، صادق کی زندگی میں ہیضہ میں مبتلا ہوکر مر گیا۔ اللہ اکبر۔ فاعتبر ویااولیٰ الابصار!! خدا کا فیصلہ ملاحظہ ہو اور اللہ کے قربان جائیے کہ کس طرح فیصلہ ہوا۔ اس اشتہار کی اشاعت کے ہفتہ عشرہ کے بعد ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو اخبار البدر قادیانی میں پھر شائع ہوا۔ ’’ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا۔ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘
ایلو! ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا غلام احمد کو لاہور کے مقام پر وبائی ہیضہ ہوا اور وہ مر کر ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے۔ یہ جھوٹوں اور کذابوں کا انجام ہوتا ہے اور حضرت مولانا مولوی ثناء اللہ صاحب مرزا کی وفات کے بعد تقریباً چالیس سال زندہ رہے اور راقم رسالہ نے مرزا قادیانی کی موت کے بعد بیسیوں سال تک مولانا کے مناظرے اور مباحثے سنے۔
محمدی بیگم اور مرزا غلام احمدقادیانی
مرزا غلام قادیانی کے ماموں زاد بھائی مرزا احمد بیگ ساکن پٹی کی ایک لڑکی تھی جس کا نام محمدی بیگم تھا۔ مرزا قادیانی کے دل میں اس کا ایسا تصور قائم ہوگیا کہ اس سے شادی کرنے کے لئے عزم صمیم کرلیا۔ اس کے والدین کو طرح طرح کے سبز باغ دکھلائے۔ پیش گوئیوں کے ذریعے انہیں مرعوب کیا۔ ۱۸۸۶ء میں اشتہار شائع کردیا جس میں انہیں دھمکیاں دیں۔ اس لئے کہ اس کا والد مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کی شادی مرزا غلام احمد سے کردے۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ