لوگوں کے یاد دلانے پر اس زلزلہ کا معمولی تذکرہ آئے۔ افسوس صد افسوس کہ تو ہمات باطلہ اور غلوفاسدہ نے قادیانی دل ودماغ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ مارو آنکھ پھوٹے گھٹنہ والی مثال صادق آتی ہے۔ جناب صاحبزادہ اگر مرزا قادیانی کی پیش گوئی پر بددیانتی سے میں نے کوئی استہزاء کیا تھا تو زلزلہ کی زد میں مجھے آنا چاہئے تھا نہ کہ دھرمسالہ کے کسی آدمی کو مجھ پر تو خداوند تعالیٰ کا فضل وکرم ہی رہا۔
مرز ائی جماعت دنیا کی تباہی پر خوش ہوتی ہے
صاحبزادہ صاحب تمام باتیں چھوڑ کر اور اب زلزلوں ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اور مرزا قادیانی کا ایک بے معنی اور دقیانوسی الہام یعنی ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘ درج کرکے لکھتے ہیں کہ: ’’اس کے بعد خدا تعالیٰ کے حملے زلزلوں کے رنگ میں بھی جس قدر ہوئے ہیں اگر دوسرے عذابوں کو نظر انداز کرکے انہی کو دیکھا جائے تو وہ آنکھوں والوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا میں تین صدیوں کے دنیا کے بڑے بڑے زلزلوں کی فہرست اور تعدد اموات دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے زلزلوں کی نسبت وہ کس قدر حقیر تھے۔‘‘ اس کے بعد صاحبزادہ صاحب تین صدیوں کے زلزلوں اور مرزا قادیانی کی زندگی کے ۲۶ سالہ زلزلوں کا بلحاظ ملک وسنہ وتعداد مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اس گنتی کو دیکھو کہ پہلے دو سو نوے سال میں تین لاکھ تیرہ ہزار اموات زلزلہ سے ہوئی ہیں اور گیارہ زلزلے آئے ہیں اور ان ۲۶ سال میں چار لاکھ تین ہزار اموات ہوئی ہیں اور دس زلزلے آئے ہیں گویا ایک لاکھ کے قریب ان سے زیادہ (یعنی سخت زلزلہ) اور اس کے بعد اٹلی کا زلزلہ جو ۱۹۱۴ء میں آیا ہے اور ترکی کا زلزلہ شامل کرلیا جائے تو قریباً ایک لاکھ اموات اور دو زلزلے اور زیادہ ہوجاتے ہیں۔ پس غور کرو کہ تین سو سال میں زلازل جس قدر دنیا میں آئے تھے ان کی اموات کی تعداد زیادہ ہے اور قلیل عرصہ میں بہت سے زلزلے آئے ہیں۔ حضرت صاحب کے دعوے سے پہلے تین سو سال کے زلزلوں کی اموات سے سات ہزار آدمی زیادہ مرے ہیں۔‘‘
لیجئے حضرات!! اب تو آپ کو معلوم ہوگیا کہ جناب صاحبزادہ صاحب اس بات سے