بہتان سے پاک ہے۔ پہلے ہم بطریق عموم کے جماعت صحابہ کرام کی بابت دکھلانا چاہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی بابت مشکوٰۃ نبوت سے کسی قسم کا عقیدہ رکھنے کی ان کو تعلیم ملی تھی۔
صحابہ کرامؓ
مدینہ طیبہ کی پاک سرزمین ہے‘ آفتاب اسلام کو طلوع ہوئے بائیس۲۲ سال گزر چکے ہیں‘ بقعہ حجاز مع اطراف کے نور ایمان سے منور ہوچکا ہے۔ مکہ بھی فتح ہوچکا ہے اور یدخلون فی دین اللہ افواجا کا نظارہ لوگوں کے سامنے ہے، نبی کریمﷺ کو ہجرت کرکے مدینہ طیبہ میں قیام فرما ہوئے پورے نو سال ہوچکے ہیں، عام الوفود ہے، یعنی عرب کے ہر چہار گوشوں سے مسلمانوں کے وفد دار ہجرۃ (مدینہ منورہ) کی جانب کشاں کشاں چلے آرہے ہیں، انصار کی سرزمین بے شمار مسلمانوں کی جماعت سے بھری ہوئی ہے کہ ایک روز یکایک آفتاب کو گرہن لگتا ہے۔ جگر بند رسول، ابراہیم کی وفات ہوتی ہے، تمام مسلمانوں میں جن سے کہ مدینہ طیبہ کی ہر گلی اور کوچے، بازار اور سڑکیں پٹی ہوئی ہیں، اضطراب برپا ہوجاتا ہے۔
اتنے میں منادی رسول کی صدا کانوں میں آتی ہے جو گرہن کی نماز کے لئے تمام لوگوں کو مسجد نبوی کی طرف دوڑ جانے کا اعلان کرتا پھرتا ہے۔ مدینہ کے تمام مکان مکینوں سے یک دم خالی ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے ، مرد اور عورتیں، لڑکے اور بچے مسجد نبوی میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ تشریف لاتے ہیں اور سب کو صلواۃ کسوف پڑھاتے ہیں۔ یہ نماز اتنی لمبی ہوتی ہے کہ عورتیں غش کھا کھا کر گر جاتی ہیں۔ نمازی دھوپ میں تلملا اٹھتے ہیں بعد نماز حکم ہوتا ہے کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں‘ ابو بکر صدیقؓ بھی تشریف فرما ہیں اور عمر فاروقؓ بھی‘ ابن عباسؓ بھی حاضر ہیں اور امام حسنؓ بھی عشرہ مبشرہ بھی موجود ہیں اور اصحاب بدرورضوان بھی غرض تمام مہاجرین وانصار، شہری وبیرونی صحابہؓ بیٹھے ہوئے ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک بصیرۃ افروز خطبہ دیتے ہیں‘ جس میں پہلے تمام حاضرین سے اپنی تبلیغ کی شہادت لیتے ہیں، جم غفیر بول اٹھتا ہے۔ نشہد انک قد بلغت، حضورﷺ! آپ نے فرض تبلیغ بخوبی ادا فرما دیا‘ پھر آپ گرہن کی حقیقت، ترغیب توبہ، تیس جھوٹے مدعیان نبوت کا خروج، اعور دجال کا ظہور اور اس کے دجل ومکر کا تفصیلی بیان دیتے ہوئے بلند آواز سے فرماتے ہیں۔ فیصبح فیہم عیسیٰ ابن مریم فیہزمہ اﷲ وجنودہ…الخ! (مستدرک حاکم ج۱ ص۳۳۱) یعنی عہد دجال اکبر میں ایک صبح کو حضرت عیسیٰ ابن مریم تشریف لائیں گے۔