اس وجہ سے کہ ہم تعداد میں بہت کم ہیں جیسا کہ ہم کو الزام دینے والے سمجھتے ہیں اور نہ اس وجہ سے کہ ہم خوشامدی اور چاپلوس ہیں۔ بلکہ اس وجہ سے کہ ہم کو اپنے حاکموں (انڈیا ان دی بیلنس میں کمال الدین کے الفاظ کو ملاحظہ کیجئے) سے وفادار اور صادق رہنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور مقدس رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا۔
مسیح موعود(مرزاقادیانی) نے رات ودن دیرا اور سویرا اپنی تقریروں اور تحریروں سے اپنے متبعین کو برٹش گورنمنٹ کے وفادار رہنے اور وقت، ضرورت اس کی ہر ممکن مدد کرنے کی ترغیب دلائی اور نیز احمدی فرقہ میں داخلہ کی دس شرطوں میں گورنمنٹ کی وفاداری کو شامل کیا۔ اس لئے کتنا ہی دبائو ہمارے اوپر ڈالا جائے۔ کوئی ترغیب خواہ وہ کتنی ہی دلربا ہو اور کوئی ایذا رسانی کتنی ہی دل شکن ہو۔ ہم کو گورنمنٹ کے خلاف دشمنی اور سڈیشن پر آمادہ نہیں کرسکتی۔ ہمارا اقرار وفاداری خالی خولی شیخی اور صرف زبانی دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے دل ہمارے الفاظ کی مطابقت کرتے ہیں۔ جب کبھی موقع ہوا ہم نے اپنی جانوں، عزت اور مال کا نقصان اٹھا کر گورنمنٹ کا ساتھ دیا۔ ہمارے اس زبانی دعوے وفاداری کے عملی طور پر اظہار کا موقع ۱۹۱۹ء کے موسم بہار میں آیا جب کہ رولٹ بٹ کے خلاف بطور زبردست احتجاج کے مسٹر گاندھی نے بلاتشدد مقابلہ شروع کیا اور تمام ہندوستان میں۲؍اپریل کو مکمل ہڑتال منائی گئی۔ احمدی پبلک نے عموماً اور احمدی تاجروں اور طالبعلموں نے لاہور کے مختلف کالجوں میں تعلیم پاتے تھے۔ خصوصاً اپنے آپ کو ایجی ٹیشن کرنے والوں سے علیحدہ رکھ کر ممتاز کیا۔ باوجود اس کے کہ ہمارے دکانداروں کو سوشل بائیکاٹ کی (جس نے بعض جگہ عملی صورت اختیار کرلی۔) دھمکی دی گئی۔ انہوں نے اپنی دکانیں کھلی رکھیں۔ طالب علموں نے بھی اپنے امام کی آرزو کو پورا کیا۔ ان کی تحقیر کی گئی۔ ان کو لعنت ملامت کی گئی اور اکثر حالتوں میں بہت سختی سے برا بھلا کہا گیا اور گالیوں سے پیش آیا گیا مگر وہ پرنسپلوں اور دیگر ممبران سرشتہ کے حسب اطمینان اپنی جماعتوں میں حاضر ہوتے رہے اور دنیا کو دکھا دیا کہ ان کا لیڈر قادیان میں تھانہ کہ مسٹر گاندھی۔‘‘
۲…گاندھی اور احمدی
’’چند یوم کے بعد مسٹر گاندھی کی نام نہاد گرفتاری عمل میں آئی جس نے سارے پنجاب کو ایک سرے سے دوسرے تک ایک زبردست طوفان کے بگولے سے بھر دیا۔ مقام صدر (قادیان) سے تمام احمدیوں کو گورنمنٹ کے ساتھ رہنے اور افسروں کو ہر قسم کی مدد پہنچانے کے جن