اگر علم نہ بھی ہو تو زمین پر اترنے کے بعد تو ان کو علم یقینی ہوجائے گا۔ پھر کیونکہ خدا کے حضور غلط بیانی کریں گے؟ ایسا جھوٹ فرشتوں کی شان کے خلاف ہے۔ ماہو جوابکم حوحوابنا
اصل یہ ہے کہ آیت مذکورہ کو نہ فرشتوں سے کوئی تعلق ہے نہ حضرت عیسیٰ سے۔ اس لئے کہ آیت میں عابدین کے ساتھ ان کے معبودوں کو تہدید اور ڈانٹ ہے اور مقربین (ملائکہ وانبیائ) کی شان اس سے بلند وبالا ہے کہ ان کو ڈانٹ بتائی جائے کیونکہ اس میں تحقیر ہے۔ نیز آیت میں عابدین اور ان کے معبودوں کی باہم گفتگو کا ذکر ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نیز فرشتوں سے اﷲ تعالیٰ سوال کرے گا اور یہ لوگ اﷲ کو جواب دیں گے نہ اپنے عابدین کو۔ چنانچہ فرشتوں کا جواب سورہ سبا میں الگ بیان ہوا ہے۔ جس میں مذکور ہے کہ وہ (اپنی معبودیت کے علم سے انکار نہیں کریں گے بلکہ) یوں کہیں گے: ’’سبحانک انت ولینا من دونہم بل کانوا یعبدون الجن…الخ! (سبا:۴۱)‘‘ تیری ذات شریک سے پاک ہے ہمارا تعلق تجھ سے ہے نہ ان سے وہ تو شیطان کو پوجتے تھے۔ یعنی شیطان کے بہکانے سے انہوں نے شرک (ہماری پرستش) کیا تھا۔ لہٰذا یہ پوجا دراصل شیطان کی ہوئی نہ ہماری اسی طرح حضرت عیسیٰ کا جواب سورہ مائدہ میں الگ بیان ہوا ہے۔ جس میں منقول ہے کہ آپ (بھی اپنی معبودیت کے علم سے انکار نہیں فرمائیں گے بلکہ) یوں فرمائیں گے: ’’سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق (الیٰ) کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شیء شہید (مائدۃ:۱۱۶،۱۱۷)‘‘ یعنی تیری ذات شریک سے پاک ہے۔ مجھ کو زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہ تھا۔ (تا) میرے رفع کے بعد تو ہی ان کا نگراں تھا اور تو تو ہر چیز سے خبر دار ہے۔ دیکھو دونوں مقربوں کا جواب ایک ہی طرح سبحانک سے شروع ہوگا اور جواب بالکل سچا دیں گے۔ نہ تو خلاف واقعہ کچھ کہیں گے نہ بے خبری کا اظہار کریں گے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہذا یوم ینفع الصادقین صدقہم (مائدہ:۱۱۹)‘‘ یعنی یہ دن وہ ہے کہ سچوں کو ان کا سچ کہنا ہی فائدہ دے گا۔ غرضیکہ اس پانچویں آیت کو بھی وفات مسیح سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
چھٹی آیت
’’او ترقیٰ فی السماء (الیٰ) قل سبحان ربی ہل کنت الابشرا رسولا (بنی اسرائیل:۹۳)‘‘ یعنی تو آسمان پر چڑھ جا(تا) ان کو کہہ دے کہ میں تو بشر ہوں جو رسول کرکے بھیجا گیا۔ یہ صفات تو اس کی ہیں جو بشریٰ لوازمات سے پاک ہے… عادت اﷲ میں داخل