گئے سچ ہے المئریقیس علی نفسہ‘ جس طرح خود اعداد بڑھا کر لکھ دیا ’بجواب ٹریکٹ ہائے نمبر۱ ، نمبر۲، نمبر۳ حالانکہ ہمارے تینوں ٹریکٹوں میں سے کسی کا بھی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح اپنی خصم کو بھی اعداد کا بڑھانے والا سمجھ لیا۔
بہانہ کرتا ہے ساقیا کیا نہیں ہے شیشہ میں مے کا قطرہ
خدا نے چاہا تو دیکھ لینا تیرا سبو بھی نہیں رہے گا
بحث احادیث
جواب دلیل
فہرست میں یہ دلیل نمبر ۱۵ ہے‘ مجاہد صاحب اس کو چھٹی دلیل لکھتے ہیں۔ حدیث لینزلن فیکم ابن مریم پر بحث کرتے ہوئے کس سادگی سے فرماتے ہیں۔ ’’نزول کا لفظ آسمان سے اترنے کو ثابت نہیں کرتا۔ (ص۱۳) پھر تو قرآن مجید کی بابت بھی جس کے لئے نزل وانزل آیا ہے۔ منزل من السماء ہونے کا انکار کردیجئے۔ کیونکہ آریہ وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ: ’’نزول کا لفظ آسمان سے اترنے کو ثابت نہیں کرتا۔‘‘ ماہوجوابکم فہو جوابنا کتب لغت میں نزول کے معنے الانحطاط من علو الیٰ سفل (اوپر سے نیچے کو اترنا) صاف صاف مرقوم ہیں۔ جیسا کہ ہم ’’جواب دعوت‘‘ کے ص۱۲،۱۳ میں مع حوالہ لکھ چکے ہیں اور اسی رسالہ کے ص۹میں حضرت عیسیٰ کا رفع بالبدن مدخول الیٰ یعنی سماء کی طرف ہم ثابت کرچکے ہیں۔
پس نزول بھی ان کا سماء (آسمان) ہی سے ہوگا جیسا کہ نص احادیث اور تصریحات آئمہ سلف وخلف سے صاف ثابت ہے اور اسی رسالہ میں بیان ہوچکا ہے۔ مجاہد صاحب نے آگے آیات: انزلنا علیکم لباسا(اعراف:۲۶)، انزلنا الحدید(حدید:۲۵)، انزل اﷲ الیکم ذکرا رسولا(طلاق: ۱۰،۱۱)، انزل لکم من الانعام(زمر:۶)، ما تنزلہ الا بقدر معلوم(حجر:۲۱) تحریر کی ہیں۔ انزال لباس کا جواب ٹریکٹ ’’جواب دعوت‘‘ کے ص۱۷ پر اور انزال حدید کا جواب ص۱۵،۱۶ پر اور انزال رسول کا جواب ص۱۳،۱۴ پر ہم بسط سے دے چکے ہیں حاجت اعادہ نہیں ہے۔ انزال انعام کا جواب اسی ٹریکٹ کے ص۱۳ پر اور انزال ۵ رزق کا جواب ص۱۷ پر ملاحظہ کرلیں کہ ان آیات میں مسبب بول کر سبب مراد لیا گیا ہے۔ کیونکہ بعض آیات میں محض نزول کا ہی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ آسمان کالفظ بھی موجود: ’’یرزقکم من السماء (یونس:۳۱) انزل اﷲ من السماء من ر زق (جاثیہ:۵) وفی السماء رزقکم