حضرت عیسیٰ کے رنگ وحلیہ کے اختلاف کی حدیثیں
ورنہ حقیقت میں نہ موسیٰ کے حلیہ میں اختلاف ہے نہ عیسیٰ کے رنگ وحلیہ میں، جس سے کہ دو ہستیاں سمجھی جاسکیں۔ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کے بیان میں لفظ جعد کے معنی گھونگھریالے بال کے نہیں ہیں بلکہ گٹھیلے بدن کے ہیں۔ نہایہ ابن اثیر میں ہے: معناہ شدیدا الاسر والخلق… ناقۃ جعدۃ ای مجتمعۃ الخلق شدیدۃ یعنی جعد کے معنی جوڑوبند کا سخت ہونا۔ جعدہ اوٹنی مضبوط جوڑ بند والی۔ مجمع البحار میں ہے: اما موسیٰ فجعد اراد جعودۃ الجسم وہواجتماعہ واکتنازہ لاضد سبوطۃ الشعر لانہ روی انہ رجل الشعر وکذا فی وصف عیسیٰ (ج۱ ص۱۹۶) کذا فی فتح الباری (پ۱۳ ص۲۷۶ ونووی شرح مسلم ج۱ ص۹۴) یعنی حدیث میں موسیٰ وعیسیٰ کے لئے جو لفظ جعد آیا ہے اس کے معنے بدن کا گٹھیلا پن ہونا ہے۔ نہ بالوں کا گھونگھریالا ہونا ہے کیونکہ ان کے بالوں کا سیدھا ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح لفظ ضرب اور جسیم میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ ضرب بمعنے نحیف البدن اور جسیم بمعنے طویل البدن ہے۔قال القاضی عیاض المراد بالجسیم فی صفۃ موسیٰ الزیادۃ فی الطول (فتح الباری انصاری ص۲۷۶ پ۱۳) یعنی صفتہ موسیٰ میں لفظ جسیم کے معنی لمبائی میں زیادتی ہے۔ اسی طور سے حضرت عیسیٰ کے رنگ میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ لفظ احمر کا صحابی راوی نے سخت انکار کیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں موجود ہے: عن ابن عمر قال لا واﷲ ما قال البنیﷺ لعیسیٰ احمر (بخاری المصری ج۲ ص۱۵۸) حضرت عبداللہ بن عمر قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ قسم ہے اللہ کی آنحضرتﷺ نے حضرت عیسیٰ کی صفت میں احمر (یعنی سرخ رنگ) کبھی بھی نہیں فرمایا ہے۔ پس پہلا رنگ برقرار رہا یعنی سفید رنگ سرخی مائل (گندمی) لہٰذا رنگ وحلیہ کا اختلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مدفوع ہے اور حقیقت میں جیسے موسیٰ ایک ہی تھے عیسیٰ بھی ایک ہی ہیں۔ والحمد ﷲ!
پانچویں حدیث
بحوالہ صحیح بخاری مجاہد صاحب نے اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر یوں لکھی ہے۔ ’’معراج کی رات میں جیسے دوسرے نبیوں کی روحوں سے ملاقات کی ویسے ہی حضرت عیسیٰ کی روح سے۔(ص۳۰)‘‘ حالانکہ نبیوں کی روحوں سے ملنا نہ تو صحیح بخاری میں مذکور ہے نہ حدیث کی اور کسی کتاب میں۔ یہ روح کا لفظ مجاہد صاحب نے اپنی طرف سے بڑھایا ہے۔ تاکہ یہ ثابت کریں کہ معراج میں آنحضرتﷺ نے حضرت عیسیٰ کو ان انبیاء کے ساتھ دیکھا جو مر کر اس