ٹریکٹ مذکور کے آخر میں ص۱۵ وص۱۶ پر ایک مختصر سی فہرس شائع کی گئی تھی۔ مجاہد صاحب نے اس فہرس کے جواب دینے کی سعی لا حاصل کی ہے۔ وہ بھی خیر سے پوری نہیں بلکہ ۲۲نمبرں میں سے صرف دس نمبروں کے متعلق خامہ فرسائی کی ہے۔ یعنی نصف قرضہ بھی ادا نہیں کیا ہے۔ پس جو کچھ بھی ملا ہے اس کی حقیقت ملاحظہ ہو۔
بحث آیات
جواب دلیل نمبر۱
فہرست میں یہ دلیل نمبر۵ تھی مجاہد صاحب نے پانچ کو ایک بنا دیا، ہم نے صلبوہ کا ترجمہ ’’صلیب پر چڑھانا‘‘ لکھا تھا جس طرح شاہ عبدالقادر صاحب نے لکھا ہے۔ ’’نہ سولی پر چڑھایا‘‘ شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے: ’’بردار نہ کردند اورا‘‘ مجاہد صاحب لکھتے ہیں: ’’یہ ترجمہ غلط اور عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ (ص۵)‘‘ مرزا قادیانی تو شاہ ولی اللہ صاحب کو ’’رئیس محدثین‘‘ تسلیم کریں (ازالہ ص۱۵۳، خزائن ج۳ ص۱۷۸، ۱۷۹) اور مجاہد غلام قادیانی ان کو زبان عربی اور اس کی لغت سے سراسر ناواقف بتائیں، یہ ہیں: تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا
صلب کے معنے
مجاہد صاحب نے ایک نئی حقیقت بیان کی ہے کہ: ’’صلب کے معنی سولی پر چڑھانے کے نہیں، سولی پر چڑھا کر مار دینے کے ہیں۔‘‘ (ص۵)کیا اچھا ہوتا کہ اگر مجاہد صاحب یہ بھی بتا دیتے کہ عربی زبان میں صرف سولی پر چڑھانے کے لئے کون سا لفظ بولا جاتا ہے؟ اجی حضرت! جو الفاظ کہ افعال کے لئے موضوع ہیں وہ صرف ان کی ابتدائی صورت کے لئے ہوتے ہیں۔ نتیجہ ان میں داخل نہیں ہوتا۔ نتیجہ پر دلالت ترکیب سے ہوتی ہے، یا زیادت سے۔ اسی لئے عربی لغت کی تمام کتابوں میں صلب کے معنی صرف سولی پر چڑھانا مرقوم ہیں۔ موت اسے لازم نہیں۔ ورنہ عرب عرباء کا کوئی شعر پیش کرو۔ مجاہد صاحب بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں، لکھتے ہیں: ’’لسان العرب میں ہے الصلیب ہذہ القتلۃ المعروفۃ‘‘ لسان العرب کا تمام عربی لغات سے اعلیٰ وافضل ہونا شے دیگر ہے اور اس کا سمجھنا شے دیگر۔ مجاہد صاحب نے جوش جہاد میں قتلۃ کے معنی ’دقتل کردینا‘‘ کئے ہیں۔ میں ان کی علمیت پر ہنسوں یا ان کے ’’مولوی فاضل‘‘ ہونے کا ماتم کروں؟ جناب والا! فعلۃ کا وزن عربی زبان میں نوعیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے: قواعد فن صرف کی مشہور کتاب شافیہ میں ہے: ’’ ویکسر الفاء للنوع نحو ضربۃ وقتلۃ‘‘ پس