’’قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملاقیکم ثم تردون الیٰ عالم الغیب والشہادۃ فیکم بما کنتم تعملون‘‘ اس طرح ٹائٹل پر یہ اشعار بھی درج ہیں۔
ہیں زندہ وہ جنہیں مارتا تھا تو ظالم
رہیں خدا کے فضل سے وہ زندہ سالم
ہیں خوش جہان وجہانیاں تیرے مرنے سے
بچا نہ تیری زبان سے جاہل وعالم
برا بھلا تو تھا کہتا اسی پے عیسیٰ کو
تھا مارتا تو اسی واسطے مسیحا کو
کہے تھا قابل نفرت تو معجزوں کو بھی
اس لئے تھا تو پیچھے لگاتا دنیا کو
محمدی پے نہ تو ہو سکا کبھی قائم
اگرچہ فکر اسی کا تھا قائم ونائم
کدھر گیا تیرا لڑکا اے کادیانی وہ
کہ جس سے بادشاہ ڈھونڈیں گے برکت دائم
شد عقل مسخ کادیانی کی
کہ اب بھی کرتے ہیں تقلید آنجہانی کی
پڑا وہ بھاڑ میں دوزخ کے
گیا گذر ہے یہ علامت قہر آسمانی کی
یہ رسالہ سول اینڈ ملٹری نیوز پریس لدھیانہ سے ۱۹۰۸ء کو شائع ہوا۔ ایک سو چار سال بعد دوبارہ ۲۰۱۲ء میں اشاعت، پروردگار عالم کا فضل ہی ہے اور بس!
۲/۸… انکشاف شر حقیقت الوحی: یہ بھی مولانا ابوالمنظور محمد عبدالحق کوٹلوی سرہندی کی تصنیف ہے۔ ۱۹۰۸ء میں اوّلاً شائع ہوئی۔ اس کے ایڈیشن اوّل کے ٹائٹل پر یہ شعر درج تھے۔
ہے بندہ حق پے لطف یزداں
ہے بندۂ حق پے فضل رحماں
کر اس میں ضرور غور مرزا
اور حق کے لئے دیکھ یہ برہان
ہو حق پے فدا اے اہل احسان
ناحق سے عطاء ہو تجھ کو عرفان
مرزا کے فساد سے بچ کر
ہو تابع حق اے اہل ایمان
’’انکشاف شر حقیقت الوحی‘‘ کادیانی سے ۱۳۲۶ھ اس کتاب کا سن اشاعت اور مرزاقادیانی کا سن وفات نکلتا ہے۔ کیونکہ ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۸ء بنتا ہے۔ ٹائٹل کی آخری سطور میں یہ رباعی درج ہے۔
غالب ہے ہمیشہ حق بمیدان
کید وکذب وبطلان
مرزا پے پڑی ہے مار حق کی
ہے منکر حق ذلیل ہرآن
یہ حجت حق ہے اور سلطان
بس چھوڑ غرور وکبر وکفران
جی حق نے نہ چرا اے مرزا
منہ موڑ رہبروی شیطان