کس قدر خوش ہیں کہ تین سو سال میں بھی اس قدر نقصان جان نہیں ہوا اور دنیا پر اس قدر تباہی نہیں آئی کہ جس قدر مرزا قادیانی کی بابرکت زندگی کے صرف چار سال میں دنیا پر سخت سے سخت تباہیاں آئیں اور کثرت سے مخلوق خدا ہلاک ہوئی کیونکہ پہلے تین سو سال میں تو تین لاکھ تیرہ ہزار اموات ہوئیں اور مرزا قادیانی کی چار سالہ مقدس مسیحانہ زندگی میں تین لاکھ ۲۰ ہزار آدمی مرے ہیں۔ کیا اچھے مسیح ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ صاحبزادہ صاحب خلق خدا کے زیادہ مرنے پر کس قدر خوش ہیں اور اسی نحوست اور تباہی کو مرزا قادیانی کی صداقت کا معیار قرار دیا جاتا ہے۔
اس مختصر رسالہ میں اتنی گنجائش نہیں کہ اس امر پر بحث کریں کہ زلازل کا آنا کسی شخص کی صداقت کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے قبل گزشتہ صدیوں میں ایسے ایسے عظیم الشان زلزلے اور حادثات وقوع میں آچکے ہیں کہ جن کے مقابلہ میں اس زمانہ کے زلزلوں کی کوئی ہستی ہی نہیں۔ انشاء اللہ اس موضوع پر کسی آئندہ ٹریکٹ میں مفصل بحث کریں گے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زلازل ہی کا آنا مرزا قادیانی کی صداقت کا معیار ہے تو پھر صاحبزادہ صاحب اس جھوٹی پیش گوئی کو موجودہ جنگ اور زاروروس کی معزولی پر کیوں چسپاں کررہے ہیں اور پھر ساتھ ہی ایک یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صاحبزادہ نے زلازل اموات ہی کا مقابلہ کرنا تھا تو ہندوستان کے ہر ایک شہر کا غیر ممالک کے شہروں سے مقابلہ کیا جاتا۔ اس مقابلہ میں تو ہندوستان صرف ۱۵ ہزار اموات ہی پیش کرسکتا ہے۔
افسوس ہے کہ صاحبزادہ صاحب نے قہری نشان والا ٹریکٹ لکھ کر مرزا قادیانی کی نبوت کا ذبہ اور زلزلہ والی پیش گوئی کی اور بھی زیادہ تضحیک ورسوائی کرائی ہے۔
لاہور کے مرزائی ہمارے ٹریکٹ کا لوہا مان گئے ہیں اور مولوی محمد علی ایم اے ہمارے ٹریکٹ کا آج تک کوئی جواب نہیں دے سکے۔ جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ دل میں تو مان گئے ہیں کہ مرزا قادیانی سخت جھوٹے تھے اور ان کی زلزلہ والی پیش گوئی ہرگز پوری نہیں ہوئی۔ خدا وہ دن جلد لائے کہ مولوی محمد علی صاحب مرزا قادیانی کی مریدی سے تائب ہوکر علانیہ مسلمان ہوجائیں۔
اخیر میں میں جناب صاحبزادہ صاحب سے اس محنت کی داد چاہتا ہوں کہ میں نے مرزا قادیانی کی جھوٹی پیش گوئی کا کذب ثابت کرنے کے لئے کیسی سچی تلاش سے کام لیا ہے۔