مرزا قادیانی کی الہامی مشین کا پیچ پھرا دیا اور زلزلہ والی پیش گوئی کو خم تزلزل میں غوطہ لگا دیا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ لوگ خود یاد رکھیں کہ زلزلوں کا لانا بھی خدا تعالیٰ کی طاقت سے باہر نہیں۔ چنانچہ اس دن کہ میرے پاس یہ اشتہار پہنچا جس میں حضرت صاحب کی اس پیش گوئی سے استہزاء کیا گیا تھا اور جسے پڑھ کر میرے دل میں درد پیدا ہوا۔ رات کے وقت ایک سخت دھکہ آیا۔ زلزلہ بھی سخت تھا بلکہ بعض لوگوں کے خیال میں ۴؍اپریل کے زلزلہ سے سخت محسوس ہوتا تھا۔ چنانچہ دھرمسالہ سے ایک صاحب لکھتے ہیں ’’آج قریباً ۳ بج کر۱۷ منٹ پر نہایت سخت زلزلہ آیا… اور ٹیکہ چوہلہ کے تمام مکانات گر گئے اور باغیچہ ٹوا کے مکانات گر جانے سے ایک آدمی دب کر مر گیا اور کچھ زخمی ہوئے۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ یہ زلزلہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ سے زیادہ ہوا۔‘‘
سنا کرتے تھے کہ اگر پدرتمام نہ کند پسر تمام کند۔ کیوں صاحب بھی وہ نمونہ قیامت زلزلہ ہے کہ جس کی انتظار کرتے کرتے مرزا قادیانی مر گئے۔ کیوں صاحب یہ ان زلزلوں سے بھی بڑھ کر زلزلہ ہے کہ جن کی نسبت پانیر نے لکھا تھا کہ زلزلہ مسینا اور ڈی کیلبسرا کی کی نظر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی کیا واقعی ۴؍اپریل والا زلزلہ اس سے کمزور تھا اور اگر واقعی کمزور تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس زلزلہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور ۱۰؍مئی ۱۷ء کو جو زلزلہ آیا ہے اس سے دو جانیں بھی تلف ہوئی ہیں۔ شرم شرم۔ ۴؍اپریل والے زلزلہ کی تعداد اموات اور نقصان عمارات کا ۱۰؍مئی والے زلزلہ سے مقابلہ کرکے خود ہی شرم سار ہوجائو۔
سبحان اﷲ! کیا کہنے ہیں جناب صاحبزادہ صاحب اس لطیفہ کے یعنی مرزا قادیانی کی پیش گوئی پر استہزاء تو کرے تاج الدین احمد اور اس کی تحریر پڑھ کر جناب صاحبزادہ صاحب کے دل میں درد پیدا ہو اور اس درد کا نتیجہ یہ ہو کہ الٰہی غیرت جوش میں آ کر اس کی سزا دے دھرمسالہ والوں کو اور بجائے تاج الدین کے باغیچہ ٹوا کے مکانات گر جانے سے ایک بے گناہ آدمی دب کر مر جائے۔
لاہور میں یہ زلزلہ فیصدی ایک آدمی کو محسوس ہوا تو ہو مگر اس کے صدمہ سے ایک چیونٹی تک کا نقصان بھی نہ ہوا اور خاص کر تاج الدین تو اس زلزلہ کی غیر معمولی جنبش محسوس تک نہ کرے اور مزے سے میٹھی نیند سویا رہے اور پھر طرفہ یہ ہے کہ تمام دن اس زلزلہ کا اسے خیال تک نہ آئے اور نہ ہی گھر کے لوگ تمام دن اس زلزلہ کے متعلق کو ئی تذکرہ کریں۔ البتہ شام کو وہ ایک بازاری