نوٹ: یہ تو میں مرزے کی کتابوںسے ثابت کرچکا ہوں کہ مرزے نے اپنی فضیلت بعض انبیاء سے بہتر ظاہر کی ہو اس سے تو کوئی اندھا بھی انکار نہیں کرسکتا۔ یہاں پر ایک دو گزارشیں کرنا ضروری سمجھتا ہوں غور سے ملاحظہ کرو۔ لاہوری مرزائی کہتے ہیں کہ مسلمان مرزے کو اس رو سے کافر کہتے ہیں کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا یہ اس پر بہتان ہے۔ چلیے میں نے تھوڑی دیر کے لئے مان بھی لیا کہ مرزے نے نبوت کا دعویٰ کہیں بھی نہیں کیا اور اس رو سے کافر نہیں مگر اس کو کیا کرو گے کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے (قال ابن حبان من ذہب الیٰ ان الولی افضل من النبی فہو زندیق یجب قتلہ) یعنی ابن حبان ؓ فرماتے ہیں جو کہ کہے کہ ولی نبی سے افضل ہو تو وہ زندیق ہے اور اس کا قتل واجب ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی اور اس کے حواری اگر اس رو سے کافر نہیں تو اس رو سے تو ضرور کافر ہیں۔ اب بھی دوستو مرزے کو مسلمان کہو گے؟ ذرا انصاف کرو اور دوم یہ کہ مرزے نے شعر مذکور میں آدم ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور حضرت آدم تو تمام نبیوں کے باپ تھے۔ تو اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کہتا ہے کہ میں بھی تمام نبیوں کا باپ ہوں۔ معاذ اﷲ منہ
سوم یہ کہ مرزا ن شعر مذکور میں موسیٰ اور ابراہیم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ مرزا نے کونسی مشابہت کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کا دعویٰ کیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے تو اس فرعون کا مقابلہ کیا تھا اور اس کے منہ پر تھپڑ لگائے تھے جس نے انا ربکم الاعلیٰکا دعویٰ کیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اس جابر بادشاہ نمرود کو زیر وزبر کیا تھا جو کہ انا احیی وامیت کا ڈھول بجایا کرتا تھا۔ مگر مرزا قادیانی تو ایک سلطنت کو جو کہ فرعون اور نمرود کے سلطنت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہے کہ: ’’حضور میں تو سرکار والا کابہ دل وجان خیر خواہ ہوں اور میرے والد غلام مرتضیٰ کو دربار گورنری کی کرسی بھی ملتی تھی اور میرا بڑا بھائی غلام قادر بہت مدت تک انگریز سرکار کی خدمت کرتا رہا اس کی وفات کے بعد اگرچہ میں ایک گوشہ نشین آدمی تھا مگر تاہم سترہ برس ان کی خدمت کرتا رہا اور جہاد کی ممانعت کے بارے میں رسالے وغیرہ لکھتا رہا اور بلاد شام اور روم عراق اور افغانستان میں بھیجتا رہا تو کیا ایسے شخص سے یہ ممکن ہے کہ وہ دل میں بھی بغاوت کا خیال رکھتا ہو۔‘‘
(خلاصہ از کتاب البریہ ص۳، ص۴ تا ۸ خزائن ج۱۳ ص ایضاً ملخص)