عرصہ کے اندر فلاں تاریخ تک مر جائے گا۔ بوڑھا ہونے کے باوجود پیش گوئی کی تاریخ پر نہ مرا۔ بلکہ کافی عرصہ تک بعد کو زندہ رہا۔ مرزا نے بہت زور لگایا کہ اس پیش گوئی کے غلط ہونے کی تاویلات پیش کی جائیں مگر۔
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
۱… خدائی شان!! خدائی فیصلہ!!
’’آتھم کے متعلق پیش گوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژ مردہ ہیں۔ بعض لوگ ناواقفی کے باعث اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں۔ لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو رہے ہیں کہ اسے خدا ہمیں رسوا مت کریو۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۷)
’’۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو جس دن عبداللہ آتھم والی پیش گوئی پورا ہونے کا انتظار تھا۔ آپ (ماسٹر قادر بخش) قادیان میں تھے کہ آج سورج غروب ہوگا اور آتھم مر جائے گا مگر جب سورج غروب ہوگیا تو لوگوں کے دل ڈوبتے گئے۔ ماسٹر قادر بخش نے امرتسر جاکر عبداللہ آتھم کو خود دیکھا۔ عیسائی اسے گاڑی میں بٹھائے۔ دھوم دھام سے بازاروں میں لئے پھرتے تھے۔‘‘
(مضمون رحیم بخش پسر ماسٹر قادر بخش اخبار الحکم قادیان ۷؍ستمبر ۱۹۲۳ئ)
آتھم کا خط
’’میں خدا کے فضل سے تندرست ہوں۔ اب مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ آتھم نے اپنے دل میں چونکہ اسلام قبول کرلیا۔ اس لئے نہیں مرا۔ انہیں اختیار ہے جو چاہیں تاویل کریں لیکن میں پہلے بھی عیسائی تھا۔ اور اب بھی عیسائی ہوں اور خدا کا شکر کرتا ہوں۔ اب میری عمر ۶۸ سال سے زیادہ ہے۔ جو کوئی چاہے پیش گوئی کرے کہ ایک سو سال کے اندر جو باشندے اس دنیا میں موجود ہیں۔ سب مر جائیں گے۔‘‘ (عبداللہ آتھم کا خط اخبار وفاء دارلاہور میں ماہ ستمبر ۱۸۹۴ء میں شائع ہوا، منقول از کتاب راست بیانی از شکست قادیانی)
ایک بار پھر پیش گوئی کے الفاظ اصلی کا مطالعہ کیجئے اور جھوٹے پر لعنت بھیجئے۔
’’میں اس وقت اقرار کرتا ہوں اگر (عبداللہ آتھم والی) پیش گوئی جھوٹی نکلی۔ وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے۔ وہ پندرہ ماہ میں آج کی تاریخ سے بہ سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہرسزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں… میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ زمین وآسمان ٹل جائیں مگر اس کی باتیں نہیں ٹلیں گی۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳)