اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قتل دجال سے مراد جیسا کہ مرزائی کہتے ہیں۔ دلائل سے قتل کرنا۔ یہ مطلوب نہیں ہے بلکہ ظاہری وجسمانی قتل ہے۔ چنانچہ جناب عمرؓ کا آمادہ قتل ہونا اور حضورﷺ کا بھی اس خیال کی تردید نہ کرنا بلکہ دجال کا قتل مسیح علیہ السلام کے ہاتھوں مقدر فرمانا اس پر صاف وصریح دلیل ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی
۴… نبی کریمﷺ کا دجال کے بارے میں فرمان :’’قال النّبی الدجال اعور العین الیسریٰ جفال الشعر معہ جنۃ ونارہ فنارہ جنۃ وجنۃ نار(رواہ مسلم)‘‘ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ دجال کانا ہوگا۔ بائیں آنکھ سے زیادہ بالوں والا ہوگا۔ اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہوگی اس کی۔ پس دوزخ اس کی جنت ہے اور جنت اس کی دوزخ ہے۔
’’عن انس قال قال رسول اﷲ مامن نبی الا قد انذر امتہ الاعور الکذاب الا انہ اعور وان ربکم لیس باعور مکتوب بین عینیہ ک ف ر (بخاری مسلم)‘‘ فرمایا نبی کریمﷺ نے کہ ہر ایک نبی نے اپنی قوم کو کانے جھوٹے سے ڈرایا ہے اور فرمایا آگاہ ہو کہ دجال کانا ہوگا اور پروردگار تمہارا کانا نہیں۔ اس کی آنکھوں کے درمیان ک ف ر لکھا ہوگا۔
اور فرمایا: قال النّبی ان الدجال ممسوح العین علیہا ظفرۃ غلیظۃ مکتوب بین عینیہ کافر یقرء کل مومن کاتب وغیر کاتب مشکوٰۃ شریف ترجمہ بے شک دجال ہوگا۔ مٹا ہوا آنکھ کا یعنی ایک آنکھ اس کی مٹی ہوئی ہوگی۔ اس پر ناخنہ ہوگا۔ موٹا لکھا ہوا ہوگا۔ درمیان دونوں آنکھوں اس کی کے لفظ کافر پڑھے گا۔ اس کو ہر مومن لکھنے والا اور غیر لکھنے والا۔ قال النّبی فیطلبہ، حتی یدرک بباب لد فیقتلہ‘ پس ڈھونڈھیں گے عیسیٰ دجال کو یہاں تک کہ پائیں گے اس کو دورازہ لد پر پس قتل کریں گے۔ اس کو مذکورہ بالا حدیث سے روز روشن کی طرح معلوم ہوگیا کہ دجال ایک آدمی ہوگا۔ جس کی علامات یہ ہوں گی۔
اوّل… ممسوح العین (مٹی ہوئی آنکھ والا) یعنی ایک آنکھ اس کی بالکل نہیں ہوگی یک چشم کانا ہوگا۔
دوم… لفظ کافر لکھا ہوگا۔
سوم… ہر ایک مومن ان پڑھ بھی اس کو پڑھ لے گا۔