اسی حدیث میں تاویل کی بھی گنجائش نہیں ہے کیونکہ خود مرزا قادیانی نے ایک قاعدہ کلیہ سے تاویل کے دروازہ کو بند کردیا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’قسم صاف بتاتی کہ یہ خبر ظاہری معنوں پر محمول ہے نہ اس میں کوئی تاویل ہے اور نہ استثناء ہے۔ ورنہ قسم میں کونسا فائدہ ہے۔‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲)
اس حدیث میں لفظ ’’والذی نفس بیدہ‘‘ (قسم ہے اس ذات کی الخ) کے آئے ہیں لہٰذا اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور نہ استثناء ہے۔ مرزا قادیانی نے بھی اس حدیث کے مضمون کی بدیں الفاظ تائید کی ہے۔ خود لکھتا ہے۔ ’’ہمارا حج تو اس وقت ہوگا۔ جب دجال بھی کفر اور دجل سے باز آکر طواف بیت اللہ کرے گا۔ کیونکہ بموجب حدیث صحیح کے وہی وقت مسیح موعود کے حج کا ہوگا۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۶۹، خزائن ج۱۴ ص۴۱۷) اس عبارت سے کم از کم اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ مرزا قادیانی نے تاویلوں کا سہارا ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ مسیح موعود حج ضرور کرے گا۔
مرزا غلام احمد قادیانی
۳… چونکہ مرزا قادیانی کو حج جیسی نعمت نصیب نہیں ہوئی جو بموجب صحیح حدیث کے حضرت عیسیٰ ابن مریم کی نشانی ہے۔ اس لئے مرزا قادیانی مسیح موعود نہیں ہوسکتا۔ مرزا قادیانی زن، زمین اور زر پر فریفتہ تھا اور قیمتی ادویات اس کو مرغوب تھیں حج بھلا کیسے نصیب ہوتا؟
نوٹ… مرزائی فریب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرزا مفلس کنگال تھا۔ اور وہ بیمار رہتا تھا اور کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کو مکہ اور مدینہ میں امن نہ تھا۔ (جان کا خطرہ تھا) (درست ہے دجال کو مکہ مدینہ ضرور خطرہ ہے) مومن ہوتا تو امن بھی ہوتا۔
تنبیہ… ہماری کلام صرف اس میں ہے کہ مسیح موعود حضرت عیسیٰ بن مریم کی علامت یہ ہے کہ وہ حج کریں گے۔ نبی کریمﷺ کی یہ پیشین گوئی ہے جو کبھی جھوٹی نہیں ہوسکتی مگر مرزا قادیانی نے حج نہیں کیا۔ خواہ کسی وجہ سے نہیں کیا۔ اس لئے مرزا قادیانی مسیح موعود نہیں ہوسکتا۔