ضمنی آیات
مؤلف ظہور امام نے تیسری آیت (مذکورہ) کے ذیل میں اور بھی کئی آیتیں لکھی ہیں۔ ان کی حقیقت بھی ملاحظہ ہو۔
اوّل… ’’انہم میتون(زمر:۳۰)‘‘ یہ لوگ بھی مر جائیں گے(ص۶) یہ تو ہم بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ایک دن مر جائیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔’’ان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء (ابن جریر ج۳ ص۱۰۰،۱۰۱)‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آئند زمانہ میں فناء (موت)آئے گی۔
دوم… ’’ماجعلنا لبشر من قبلک الخلد (الیٰ) فہم الخالدون (انبیائ:۳۴)‘‘ ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کو (جن میں عیسیٰ بھی شامل ہیں) زندہ نہیں رکھا…الخ! (ص۶) ’’زندہ نہیں رکھا‘‘ ترجمہ غلط ہے۔ صحیح ترجمہ یوں ہے ’’ہم نے کسی بشر کے لئے آپ سے پیشتر پیشگی یا ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی۔‘‘ اس آیت میں بشر کے لئے ہمیشہ رہنے کی نفی کی گئی ہے اور ہم حضرت عیسیٰ کا ہمیشہ کے لئے زندہ رہنا نہیں مانتے۔ یہ شان تو خدا کی ہے۔ ہو الحی (مومن) بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے زمین پر اتریں گے۔ چالیس پینتالیس سال قیام فرمائیں گے۔ نکاح کریں گے ان کو اولاد ہوگی۔ حج کریں گے۔ پھر مدینہ طیبہ میں مریں گے اور روضہ نبویہ میں دفن ہوں گے جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہے: ’’ ثم یموت فیدفن معی فی قبری (مشکوٰۃ:۔۴۷۲)‘‘
سوم… ’’وما ارسلنا قبلک من المرسلین الانہم لیأکلون الطعام ویمشون فی الاسواق (فرقان:۳۰)‘‘ جو ہم نے رسول بھیجے وہ سب کے سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ اگر ایک رسول بھی ایسا نہ ہو تو استدلال صحیح نہ ہوگا۔ (ص۷) پھر اس آیت کے بارے میں کیا کہو گے جو بالکل اسی طرح کفار کے اعتراض (تعدد ازواج نبیﷺ) کے جواب میں نازل ہوئی تھی؟ ’’ولقد ارسلنا لرسلامن قبلک وجعلنا لہم اذواجا وزریۃ (رعد:۳۸)‘‘ یعنی آپ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کے بیوی بچے تھے۔ اب بقول مرزائی اگر ایک رسول بھی ایسا نہ ہو تو استدلال صحیح نہ ہوگا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ کو نہ بیوی تھی (ریویو بابت اپریل ۰۲ئ، ص۱۲۴) نہ اولاد (حاشیہ تریاق القلوب ص۹۹، خزائن ج۱۵ ص۳۶۳) پس جب ایک رسول بغیر بیوی بچہ کے نکل آیا تو مرزائیوں کے نزدیک اﷲ کا فرمان مذکور اور اس کا استدلال