شاہد عدل ہیں۔ مرزائیوں کا یہ وہم کہ الذی کا لفظ ذوی العقول کے لئے خاص ہے اس لئے حضرت عیسیٰ بھی اس میں داخل ہیں محض غلط ہے۔ علم نحو یا لغت کی کسی کتاب میں الذی کا ذی عقل کے لئے خاص ہونا نہیں لکھا ہے۔ بلکہ اس کا استعمال بے عقل اور بے جان چیزوں پر بکثرت ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے۔ (دیوان متنبی ملاحظہ ہو:
والذی تنبت البلاد سرور
والذی تمطر السحاب مدام
یعنی شہروں کی زمینیں جو کچھ اگاتی ہیں وہ سب نشہ کی چیزیں ہیں اور بادل جو کچھ برساتے ہیں وہ سب شراب ہی ہے۔ اس شعر میں دو دفعہ الذی بے جان چیزوں کے لئے آیا ہے۔ قرآن مجید سے سنو: ’’آمنو باﷲ ورسولہ والکتاب الذی نزل علیٰ رسولہ والکتاب الذی انزل من قبل (نسائ:۱۳۶)‘‘یعنی ایمان لائو اﷲ اور اس کے پیغمبر اور اس کتاب پر جو اپنے پیغمبر پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاری۔ اس آیت میں دو بار الذی کتاب کے لئے آیا ہے۔ جو ذوی العقول میں سے نہیں ہے۔ پس آیت چہارم کو حضرت عیسیٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔
۲… اموات کے معنے ’’مرچکے ہیں‘‘ بھی صحیح نہیں ورنہ مرزائی تاویل (کہ آیت سے وہ سب جاندار اور ذوی العقول معبود مراد ہیں۔ جن کی روئے زمین پر پرستش کی جاتی ہے۔) کی بناء پر لازم آئے گا کہ سب شیاطین کو بھی موت آچکی ہے۔ کیونکہ اﷲ کے شریک وہ بھی مانے جانتے تھے جیسا کہ ارشاد ہے: ’’وجعلو اﷲ شرکاء الجن (انعام:۱۰۰)‘‘ یعنی کافروں نے اﷲ کا ساجھی جنوں کو ٹھہرایا ہے۔ نیز لازم آئے گا کہ تمام فرشتے مرچکے ہیں۔ اس لئے کہ آیت مذکورہ کے نزول کے وقت کفار مکہ فرشتوں کو اﷲ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی بھی پرستش کرتے تھے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وجعلوا الملئکۃ الذین ہم عباد الرحمن اناثا (الیٰ قولہ) وقالوا لو شاء الرحمن ما عبدناہم (زخرف:۱۹)‘‘ یعنی کافروں نے ٹھہرایا فرشتوں کو جو رحمان کے بندے ہیں۔ عورتیں (بیٹیاں) اور کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کو نہ پوجتے۔ یعنی اﷲ کے چاہنے ہی سے تو ہم فرشتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ پس جب فرشتے بھی ان معبودوں میں داخل ہوئے تو مرزائی تاویل کی بناء پر لازم آیا کہ وہ سب مر گئے۔ کیا خوب مرزا قادیانی نبی بن کر فرشتہ موت بھی بن گئے؟اپنے مخالفوں کے لئے موت کی دعائیں کیں‘ مسیح کو مارا‘ شیاطین کو کھپایا، فرشتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔