ہے۔ بلکہ دوسرے مقامات میں آیا ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کے لئے دوسر ی جگہوں میں فرما دیا گیا ہے۔ (رافعک الیّ، رفعہ اﷲ الیہ، وکہلا، قبل موتہ، انہ لعلم للساعۃ) یہ آیتیں آپ کے آسمان پر (زمین کو خالی کرکے) لے جائے جانے کے قریب اور اب تک زندہ موجود ہونے اور قیامت کے قریب آنے اور اس وقت تک بوڑھے نہ ہونے پر استثنائی دلائل ہیں جیسا کہ رسائل اظہار حقیقت کے آخر اور جواب دعوت اور نور السلام میں شائع کیا جاچکا ہے۔ اس لئے یہاں تفصیل کی حاجت نہیں ہے۔ فلیطالع ثمہ!
حضرت ابو بکرؓ کا استدلال
مؤلف ظہور امام کا یہ لکھنا کہ ’’حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات قد خلت سے ثابت کی تھی۔ (ص۶)‘‘ صریح دجل اور جھوٹ ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ جنگ احد میں آنحضرت علیہ السلام کی شہادت کی غلط خبر پھیل جانے سے بعض صحابہ کو وہم پیدا ہوا کہ رسالت اور موت میں منافاۃ ہے۔ رسول کو مرنا نہیں چاہئے۔ اس وہم کو دور کرنے کے لئے آیت مذکور نازل ہوئی تھی۔ اﷲ نے فرمایا افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم (آل عمران:۱۴۴) یعنی اگر محمدﷺ کو موت آجائے یا شہید ہوجائیں تو کیا اپنی ایڑیوں پر پھر جائو گے؟ اس میں اﷲ نے سمجھا دیا کہ نبی کیلئے موت ناممکن نہیں ہے۔ اسی طرح کا وہم صحابہ کو دوبارہ آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت شدت غم سے پیدا ہوگیا تھا۔ صدیق اکبرؓ نے اس وہم کو مختلف آیات پڑھ کر دورکیا۔ پہلے سورہ زمر کی آیت انک میت والی پڑھی پھر سورہ انبیاء کی آیت افان مت والی سنائی۔ اس کے بعد سورہ آل عمران کی آیت بالا جو غزوہ احد کے دنوں میں اتری تھی تلاوت کی۔ کیونکہ اس وقت کا وہم بعینہ ایام احد والا وہم تھا۔
آیت مذکورہ میں حضرت صدیقؓ کا استدلال ان مات سے ہے نہ خلت سے۔ کیونکہ آپ کی نظر ہی موت کے ممکن ہونے پر تھی تاکہ نبوت اور موت کی منافاۃ کا وہم دور ہو۔ چنانچہ بحمد اﷲ یہ وہم دور ہوگیا اور سب صحابہ کو آپﷺ پر موت آجانے کا یقین ہوگیا۔ انبیاء سابقین کی موت وحیات کسی کے خیال میں نہ تھی کہ حضرت عمرؓ یا اور کسی کو حیات عیسیٰ کے مسئلہ پر کچھ بولنے کی ضرورت پڑتی جبکہ یہ سب لوگ حیات ونزول عیسیٰ کے ہمیشہ قائل رہے۔ پڑھو رسالہ نور اسلام ص۱۰،۱۱، مرزائیوں کا یہ زعم فاسد ہے کہ اس وقت وفات عیسیٰ پر اجماع ہوگیا تھا اس کا وجود اور ثبوت سو ان کے پوشیدہ خانہ دماغ کے اور کہیں نہیں ہے۔ بلکہ تمام صحابہ کا اجماع واتفاق حیات نزول عیسیٰ پر البتہ ثابت ہے۔ (دیکھو نور السلام ص۹)