ادھر بیت الصنم خالی ادھر بیت الحرم خالی
پتہ لگتا نہیں اس کا عرب خالی عجم خالی
ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی
کہے دیتی ہے شوخی نقش پاکی
ان شواہد ونظائر کے بعد آیت مذکورہ کا صحیح ترجمہ ملاحظہ ہو۔ وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل(آل عمران:۱۴۴) نہیں ہیں محمدﷺ مگر ایک رسول تحقیق گزر چکے اور جگہ خالی کرچکے ہیں۔ ان سے پہلے کئی رسول۔ کوئی جگہ خالی کرکے زیر زمین مدفون ہوا اور کوئی جگہ خالی کرکے آسمان پر لے جایا گیا۔ آیت مذکور کے تھوڑا پہلے یہ آیت ہے: ’’قد خلت من قبلکم سنن (آل عمران:۱۳۷)‘‘ یعنی تم سے پہلے واقعات گزر چکے ہیں۔ واقعات مرا نہیں کرتے۔ اس سے تھوڑا پہلے آیت : ’’واذاخلو عضو…الخ‘‘ ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے۔ حضرت عیسیٰ کے ذکر میں وارد ہے ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (مائدہ:۷) یعنی نہیں ہیں مسیح بیٹے مریم کے مگر ایک رسول، تحقیق گزر چکے ہیں ان سے پہلے کئی رسول اگر خلت کے معنی کریں مر گئے اور الرسل کے معنی جس قدر رسول جیسا کہ مرزائی نے لکھا ہے۔ تو لازم آئے گا کہ محمدﷺ بھی اس آیت کے نزول کے وقت مرچکے تھے کیونکہ آب بھی الرسل میں داخل ہیں۔ حالانکہ بوقت نزول آیت آپ زندہ موجود تھے۔ پھر تو مرزائیوں کو کہنا ہوگا کہ محمدﷺ رسولوں کی جماعت سے ہی خارج ہیں تو یہ الرسل کے خلاف ہوگا۔ اس لئے الرسل کا ترجمہ جس قدر رسول صحیح نہیں اور اوپر بیان ہوچکا ہے کہ خلت کے معنی ’’مرگئے‘‘ صحیح نہیں۔ لہٰذا آیت ’’قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴)‘‘ میں حضرت عیسیٰ کو داخل مان کر بدلالت آیت بل رفعہ اﷲ الیہ معنے جگہ کو خالی اور تبدیل کرنا متعین ہوگا۔ فتدبر
مؤلف ظہور امام نے جو یہ لکھا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ کو اﷲ نے مستثنیٰ نہیں فرمایا۔‘‘(ص۶) ان کی بے علمی کا ثبوت ہے۔ مستثنیٰ کے لئے ضروری نہیں کہ اسی عبارت میں موجود ہو۔ دیکھو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثہ قرؤ (بقرہ:۲۲۸) اس آیت میں تمام مطلقہ عورتوں کے عدت تین حیض بیان فرمائی گئی ہے۔ حالانکہ حاملہ مطلقہ، صغیرہ مطلقہ، (جس کو حیض نہیں آیا) آئسہ مطلقہ (جس کا حیض بند ہوچکا ہے) غیر ممسوسہ مطلقہ (جس کو شوہر نے ہاتھ تک نہیں لگایا) یہ سب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ حالانکہ ان کا ذکر اس آیت میں نہیں