نے مرے ہوئے زمانہ میں کیا۔‘‘ کیا یہ ترجمہ صحیح ہے؟ آئو سنو قرآن نے خود ہی خلت کے معنے بیان فرما دئیے ہیں‘ سورہ حجر میں ارشاد ہے: ’’وقد خلت سنۃ الاولین (حجر:۱۳)‘‘ اور سورہ انفال میں فرمایا: ’’فقد مضت سنۃ الاولین (انفال:۳۸)‘‘ معلوم ہوا کہ خلت کے معنے مضت کے ہیں نہ ماتت کے۔
۲… اور جب خلو کا تعلق جگہ سے ہوگا تو اس کے معنی خالی اور الگ ہونا ہوں گے۔ لسان العرب میں ہے خلا المکان والشیئ… اذا لم یکن فیہ احد، یعنی جگہ خالی ہوگئی جب اس میں کوئی نہ ہو، شیء خالی ہوگئی ۔ جب اس میں کچھ نہ ہو۔ یہ کیفیت صرف موت کی ہی صورت میں منحصر نہیں ہے۔ زندہ جاندار بھی جگہ خالی کرتے ہیں۔ عرب کا شاعر کہتا ہے۔ حماسہ ملاحظہ ہو:
رسم لقاتلۃ الغرانق مابہ
الاالوحوش خلت لہ وخلالہا
یعنی یہ نشان اس محبوبہ کی جگہ کا ہے جو نازک اندام جوانوں کی قاتلہ ہے‘ اب یہاں وحشی جانور ہیں جو اس جگہ گزرتے ہیں اور یہ جگہ ان جانوروں کے لئے خالی ہے۔ یہ معنے تو نہیں ہیں کہ وحشی جانور سب مر گئے اور وہ جگہ بھی مر گئی؟ قرآن مجید سے سنئے، ارشاد ہے : ’’واذ خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ (آل عمران:۱۱۹)‘‘ یعنی منافقین جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ سے انگشت بد نداں ہوتے ہیں۔ مرزائی اس کا ترجمہ یوں کریں گے۔ ’’جب منافقین مر کر پھر کبھی نہیں آسکتے تو (مرجانے کے بعد) تم پر اپنی انگلیاں غصہ سے کاٹتے ہیں: کیا ایسا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں اور سنئے سورہ اعراف میں ہے: ’’قال ادخلو فی امم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار (اعراف:۳۸)‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ داخل ہوجائو تم (اے مجرمو) اس گروہ میں جو تم سے پہلے جنوں اور انسانوں کا جہنم کی طرف گزر چکا ہے۔ مرزائی اصطلاح سے اس کا ترجمہ یوں ہوگا۔ ’’اﷲ نے کہا تھا کہ اس جماعت میں داخل ہوجائو جو تم سے پہلے جنوں اور آدمیوں کی جہنم میں جاکر مر چکی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ ترجمہ کس قدر غلط ہے۔ جہنم میں موت کسی کو بھی نہ آئے گی۔ جیسا کہ ارشاد ہے: وما ہو بمیت (ابراہیم:۱۷) لا یموت فیہا (اعلیٰ:۱۳) یعنی جہنمیوں کو موت نہیں ہے۔ اردو زبان میں بھی ’’خالی ہونا‘‘اور ’’گزرنا‘‘ مر جانے کے معنی میں نہیں بولا جاتا۔ شاعر کہتا ہے۔