۵… اگر کتاب حقیقت الوحی کے شائع ہوجانے کے بعد کوئی اعلان مرزا قادیانی شائع کرتے ہیں تو اسے مباہلہ کہا جاسکتا اور یہ کہنا درست ہوتا کہ ’’مرزا قادیانی نے مولانا امرتسری کا چیلنج مباہلہ کا منظور کیا۔‘‘
۶… اور جب ایسا نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ آخری فیصلہ کا اعلان مولانا امرت سری کے چیلنج مباہلہ کی منظوری نہیںہے۔ بلکہ مرزا قادیانی کی ایک دعا ہے جو قبول ہوئی جیسا کہ ہم اپنے ٹریکٹ نمبر۴ میں بدلائل اس کو ثابت کرچکے ہیں۔ وہو المراد
گھر کے گواہ
قرآن مجید میں جس طرح مذکور ہے کہ زلیخا کے اہل میں سے ایک گواہ کی گواہی پر حضرت یوسف علیہ السلام بری ہوگئے تھے اسی طرح مرزا قادیانی کے اہل میں سے چند گواہوں کی شہادت موجود ہے جو ہمارے موافق ہے اور مرزائیوں کے برخلاف ان میں سے ایک گواہ (خلیفہ محمود) کی شہادت ہم اپنے ٹریکٹ نمبر۴ کے ص۱۹ میں بحوالہ تشحیذ الاذہان (ص۸۰، نمبر۶،۷ ج۳، ماہ جون وجولائی ۱۹۰۸ئ) پیش کرچکے ہیں کہ ’’آخری فیصلہ‘‘ مرزا قادیانی کی دعا نہ مباہلہ۔
۲… دوسرے گواہ مولوی محمد احسن امروہی قادیانی آنجہانی (جو مرزا قادیانی کے دست راست تھے) کا اقرار ملاحظہ ہو وہ بھی مرزا قادیانی کے اس اعلان کو دعا قرار دیتے ہیں نہ مباہلہ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ’’ایسی دعائیں تو حضرت سید المرسلین کی بھی قبول نہیں ہوئیں۔(ریویو آف ریلنجز بابت جون وجولائی ۱۹۰۸ کا ص۲۲۸)‘‘ دیکھو مرزا قادیانی کے آخری فیصلہ کو کس طرح صاف صاف دعا بتا رہے ہیں۔ کاش تم سمجھو۔
۳… تیسرے گواہ مولوی محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور ہیں جو کہ اس وقت قادیان میں ہی رہتے تھے۔ اور قادیانی جماعت سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ قادیان ماہوار رسالہ ’’ریویو‘‘ کے اڈیٹر تھے انہوں نے رسالہ مذکورہ میں مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد ہی ایک مضمون لکھا تھا۔ جس کا عنوان تھا ’’ثناء اللہ اور عبدالحکیم‘‘ اس مضمون میں انہوں نے صاف صاف اقرار کیا تھا کہ مرزا قادیانی کی دعا کا نتیجہ مرزا قادیانی کیخلاف ثابت ہوا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا) کی زندگی ہی میں ان دونوں کا ہلاک ہونا ضروری تھا… جس کے خلاف حضرت مسیح موعود (مرزا) نے بددعا کی ان میں سے کتنے اب نظر آتے ہیں؟ ایک یا دو مثالیں بچہ رہنے والوں کو النادر کالمعدوم کے حکم میں سمجھنی چاہئیں۔‘‘
(ریویو آف ریلنجز ص۲۹۵ بابت جون وجولائی ۱۹۰۸ئ)