سکیں۔ پس واضح ہو کہ ٹریکٹ مذکور کے چار صفحوں میں دو ہی باتیں بیان کی گئی ہیں نمبر۱ یہ کہ مرزا قادیانی کا اعلان ’’آخری فیصلہ‘‘ دعائے مباہلہ تھی اس چیز کے ثبوت میں تین صفحے سیاہ کئے گئے ہیں اور اس چیز کا جواب ہم اپنے ٹریکٹ نمبر ۴ میں بعنوان چوتھا عذر‘‘ ص۱۷ سے ص۱۹ تک چھ نمبروں میں نہایت بسط سے دے چکے ہیں۔ اور اخبار بدر سے ثابت کرچکے ہیں کہ انجام آتھم والا مباہلہ منسوخ ہوچکا تھا‘ لیکن چونکہ پھر وہی ’’مرغے کی ایک ٹانگ‘‘ کی طرح مباہلہ کی صدائے بے ہنگام بلند کردی گئی ہے۔ لہٰذا دوسری طور سے ہم اس کا جواب تحریر کرتے ہیں۔ پس سنئے۔ مرزا قادیانی نے کتاب اعجاز احمدی مطبوع ۱۹۰۶ء میں اور حقیقت الوحی میں ۱۹۰۶ء کو اعلان کیا تھا کہ ’’میں آئندہ کسی کو مباہلہ کا چیلنج نہیں دوں گا۔‘‘
پھر آخری فیصلہ والا اشتہار جو اپریل ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا، مباہلہ کا چیلنج کس طرح ہوسکتا ہے؟ رہا یہ امر کہ مرزا قادیانی نے مباہلہ کا چیلنج نہیں دیا تھا۔ بلکہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے چیلنج دیا تھا جیسا کہ ٹریکٹ مذکور کے ص۲ میں بحوالۂ اخبار اہلحدیث ۲۹؍مارچ ۱۹۰۷ء مرقوم ہے۔ اس میں بھی اخفائے واقعہ سے کام لیا گیا ہے۔ سنئے مولانا امرتسری (معتنا اﷲ بطول بقائہ) کے چیلنج مذکور کے جواب میں مرزا قادیانی کی طرف سے اخبار الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء اور اخبار بدر ۴؍ اپریل۱۹۰۷ء میں شائع ہوا تھا کہ ’’ہم آپ (مولانا امرتسری) سے اس چیلنج کے مطابق مباہلہ اس وقت کریں گے جب ہماری کتاب حقیقۃ الوحی شائع ہوجائے گی۔ وہ کتاب ہم آپ کو (یعنی مولانا امرتسری کو) بھیج کر معلوم کریں گے کہ آپ نے اسکو پڑھ لیا ہے؟ (گویا امتحان لیں گے۔) پھر مباہلہ کریں گے۔ کتاب حقیقت الوحی ۱۵؍مئی ۱۹۰۷ء کو شائع ہوئی لیکن مولانا امرتسری کے پاس نہیں بھیجی گئی۔ (اہلحدیث ۱۲؍جنوری ۳۴ء ص۶ کالم نمبر۳) تو مولانا صاحب نے ماہ جون ۰۷ء میں تقاضا کیا ۔
اب قابل غور یہ ہے کہ:
۱… مرزا قادیانی نے مباہلہ کو موقوف رکھا تھا حقیقت الوحی کے شائع ہوجانے اور مولانا امرتسری کے پڑھ لینے پر۔
۲… حقیقت الوحی مئی ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی ہے۔
۳… آخری فیصلہ والا اشتہار اس کتاب کے شائع ہونے سے ایک ماہ پیشتر ہی شائع ہو جاتا ہے۔
۴… پس آخری فیصلہ کا اعلان مباہلہ کیونکر ہوگیا؟