کاتب نے آیت خر موسیٰ صعقا میں لفظ خر (فارسی) سمجھ کر خر عیسیٰ لکھ دیا تھا۔ جیسے اس نے بجائے موسیٰ کے عیسیٰ بنا دیا تھا اسی طرح مرزائیوں نے بھی بجائے موسیٰ کے عیسیٰ بنا دیا ہے۔ فنعم الوفاق وجند الاتفاق۔
دیکھو قارورہ سے کیسا ان کا قارورہ ملا
۴…چوتھی حدیث
بحوالہ صحیح بخاری لکھی ہے کہ ’’نبی کریم ﷺنے پہلے مسیح اور آنے والے مسیح کا رنگ، حلیہ‘ قد علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے۔ (ص۳۰)‘‘اس طرح سے اگر دو عیسیٰ ہوجاتے تو دو موسیٰ بھی ماننا ہوگا کیونکہ ایسا ہی اختلاف سراپا موسیٰ میں بھی اسی حدیث میں صحیح بخاری کی مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو: بدر الخلق میں ہے: ’’موسیٰ رجلا آدم طوالا جعداً کانہ من رجال شنوئۃ ورایت عیسیٰ رجلامر بوعا مربوع الخلق الی الحمرۃ والبیاض سبط الراس (بخاری مصری ص۱۳۴ ج۲)‘‘ یعنی موسیٰ گندمی رنگ کے قد لمبا گھونگھریالے بال والے تھے جیسے یمن کے قبیلہ ازوشنوۂ کے لوگ، اور عیسیٰ درمیانہ قد سرخ وسفید رنگ سیدھے۔ بال والے ہیں اور کتاب الانبیاء میں ہے: ’’رایت موسیٰ واذا رجل ضرب رجل کانہ من رجال شنوئۃ ورایت عیسیٰ فاذا ہو رجل ربعۃ احمر (وفی الحدیث الذی بعدہ) عیسیٰ جعدمربوع (بخاری مصری ج۲ ص۱۵۱) یعنی موسیٰ دبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوہ کے لوگ اور عیسیٰ میانہ قد سرخ رنگ کے گھونگھریالے بال والے۔ پہلی حدیث میں موسیٰ گھونگھریالے بال والے تھے اور عیسیٰ سیدھے بال والے۔ اس حدیث میں موسیٰ سیدھے بال والے ہیں اور عیسیٰ گھونگرالے بال والے۔ پس بقول مجاہد کے دو موسیٰ ہوئے اور دو عیسیٰ اور گنتے جائیے: واما عیسیٰ فاحمر جعد عریض الصدر واما موسیٰ فآدم جسیم بسط کانہ من رجال الزط (بخاری مصری ج۲ ص۱۵۸)‘‘ یعنی عیسیٰ کا رنگ سرخ، بال گھونگھریالے اور سینہ چوڑا ہے۔ لیکن موسیٰ کارنگ گندمی ہے۔ موٹے بدن کے سیدھے بال والے جیسے جاٹ لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی حدیث کے موسیٰ دبلے پتلے از وشنوہ والوں کی طرح تھے اور اس حدیث کے موسیٰ موٹے بدن کے جاٹوں کی طرح ہیں۔ پہلی حدیث کے عیسیٰ کا رنگ سفید سرخی مائل ہے اور دوسری حدیث کے عیسیٰ کا رنگ بالکل سرخ۔ اس بناء پر جب دو عیسیٰ ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک آنے والا تو موسیٰ بھی دو ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک کوئی کیوں مجاہد صاحب درست ہے نا؟ اب سنئے اصل حقیقت کہ یہ ساری خرابی الفاظ حدیث کے صحیح معنے نہ کرنے سے پیدا ہوئی۔