آنحضرتﷺ کے ہر قول وفعل کو مشعل ہدایت سمجھ کر دوسروں کے پاس بیان کرتے تھے۔ اس پاک ارشاد کو نہ سنتے اور نہ بیان کرتے۔
حالت یہ ہے کہ اس ارشاد کے سننے والے کا نام تک مذکور نہیں ہے۔ بلکہ ساری درمیانی سند کا ذکر بھی نہیں ہے۔ پھر یہ ارشاد دنیائے اسلام کی معتبر ومستند کتب احادیث بخاری ومسلم، ترمذی وابو دائود ابن ماجہ ونسائی کے علاوہ دیگر مسانید وسنن کی کتب متداولہ میں باسناد ومتصل مذکور ہوتا اور بڑے طمطراق اور بڑی شان سے مذکور ہوتا مگر نہایت افسوس ہے کہ یہ ارشاد ان کا مشہور ومتداول کتب میں کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔ نہ اشارۃً نہ کنایۃً صرف تفسیر اور بعض غیر معتبر کتابوں میں مذکور ہے وہ بھی اس حالت میں کہ نہ سند کا پتہ نہ راوی کا پتہ ۔‘‘
کی بناوٹ بہت سی باتوں میں
پر کہیں چھپی ہے بنائی بات؟
تیسری روایت
جو سراسر محرف ہے مجاہد صاحب نے شرح فقہ اکبر مصری کے حوالہ سے یوں لکھی ہے: لو کان عیسیٰ حیا لما وسعہ الااتباعی (ص۳۰) حالانکہ اصل حدیث جو معتبر کتب حدیث میں منقول ہے۔ وہ یہ ہے:’’لو کان موسیٰ حیا…الخ‘‘شرح فقہ اکبر کے تمام ہندی قدیمی اور قلمی نسخوں میں بھی لفظ موسیٰ ہے۔ نہ عیسیٰ۔ شرح فقہ اکبر کے مصنف نے اپنی دیگر تمام تصنیفات میں اس حدیث کو بالفاظ لو کان موسیٰ حیا نقل کیا ہے۔ پس ضرور مصری نسخہ میں تحریف کی گئی ہے۔ جیسا کہ اسی رسالہ میں نہایت بسط سے ہم نے اس کو لکھا ہے۔ اب یہاں پر ہم مجاہد صاحب کے الفاظ میں جواب تحریر کرتے ہیں جو ان کے ٹریکٹ نمبر۲ کے ص۱۴ وص۱۵ سے ماخوذ ہے۔ ’’افسوس مجاہد صاحب کو نہ خدا کا غضب یاد رہا نہ رسول پاک کی حدیث یاد رہی کہ جو جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے گا وہ اپنی جگہ جہنم میں بنائے گا۔ ناواقف لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈالنا اسی کو کہتے ہیں، خدا ایسی دلیری کسی کو نہ دے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ ’’عیسیٰ حیا‘‘ کے الفاظ رسول پاک کے فرمائے ہوئے ہرگز نہیں ہیں۔ یہ سراسر افتراء بہتان ہے۔ کسی ضعیف سے ضعیف حدیث میں بھی ’’عیسیٰ حیا‘‘ لفظ رسول پاک کا فرمایا ہوا کوئی شخص نہیں دکھا سکتا۔ ان الفاظ کو شرح فقہ اکبر مطبوعہ مصر سے پیش کیا جاتا ہے۔ جو آج سے تیس سال قبل مصر میں چھپی ہے۔ اس کتاب میں کسی مرزائی نے یا کسی کاتب نے بجائے موسیٰ کے عیسیٰ کا لفظ اپنی طرف سے لکھ دیا ہے جیسے کسی