متروک ہے حاکم نے اسے ذاہب الحدیث اور ابن حبان نے مدلس کہا ہے۔ سبحان اﷲ۔ ایسے مجروح راوی کی روایت بھلا کہیں صحیح اور پھر علیٰ شرط البخاری ہوسکتی ہے؟ اسی لئے تو شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ماثبت بالسنۃ میں حدیث مذکور نقل کرکے صاف لکھ دیا ہے۔ وفیہ کلام (ص۱۱۸ مطبوع مجتبائی دہلی یعنی اس حدیث میں محدثین کو کلام واعتراض ہے۔ تعجب ہے کہ مجاہد صاحب کتاب مذکور کا حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن کتاب کھول کر نہیں دیکھتے۔ کہ اس میں کیا تحریر ہے۔ اسی طرح مجاہد صاحب نے تفسیر ابن کثیر کا بھی حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ خود ہی حدیث ان عیسیٰ لم یمت…الخ کے حوالہ لتفسیر ابن کثیر پر اپنے ٹریکٹ نمبر۲ ص۱۸ میں کل کتب تفاسیر کو بے اصل وغیر معتبر ٹھہرا چکے ہیں۔ ان کو جب ضرورت پڑی تو وہی کتب معتبربن گئیں۔ سنئے جناب حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں۔ ’’انہ رفع ولہ ثلاث وثلاثون سنۃ فی الصحیح وقدورد ذلک فی حدیث فی صفۃ اہل الجنۃ انہم علی صورۃ آدم ومیلاد عیسیٰ ثلاث وثلاثین سنۃ واما ما حکاہ (الیٰ) فشاذ غریب بعید (ج۳ ص۲۴۵)‘‘
یعنی صحیح امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی عمر رفع کے وقت ۳۳ سال کی تھی اور یہ صراحت ایک حدیث میں آگئی ہے جو جنتیوں کے بیان میں وارد ہے کہ جنتی لوگوں کی صورت (طوالت میں) حضرت آدم کی سی ہوگی اور عمر حضرت عیسیٰ کے برابر ۳۳ برس کی ہوگی اور جو بعضوں نے نقل کیا ہے۔ کہ عیسیٰ سو سے زائد عمر تک رہے تھے۔ یہ روایت شاذونادر اور دور ہے حق سے۔ پھر ابن کثیر نے حضرت عیسیٰ کی ۳۳ سال والی عمر کی حدیث مرفوع کو بالسند تفسیر کی نویں جلد ۳۸۰ میں نقل کردیا ہے۔
دوسری روایت
جو محض بے اصل ہے مجاہد صاحب نے یوں نقل کی ہے: ’’لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیّین لما وسعہما الا اتباعی (ص۳۰)‘‘ اس کے جواب میں ہم خود مجاہد صاحب کی ایک تحریر ان کے ٹریکٹ نمبر۲ ص۱۷ سے بمصداق ’’عطائے تو بلقائے تو بخشیدم‘‘ نقل کردینا کافی جانتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ اس عربی عبارت کو حدیث الرسول کہنا ہی غلط ہے۔ چہ جائیکہ اس سے کچھ استنباط واستدلال کیا جاسکے۔ اگر حقیقتاً یہ حدیث الرسول ہوتی تو صحابہ کرام جو پروانہ وار آنحضرتﷺ کے ساتھ مثل سایہ کے رہتے تھے۔ اور حضورﷺ کے ارشادات کی خوشہ چینی کر کے اپنے ایمانوں کی تازگ کیا کرتے تھے اور