عبدالبر فرماتے ہیں: ’’فی ہذا الخبر من روایۃ ابن لہیعۃ ولا حجۃ فی مثل ہذا الاسناد عند جمیعہم (استیعاب ص۱۶ ج۱)‘‘ عینی جس حدیث کی سند میں ابن لہیعہ ہو وہ تمام محدثین کے نزدیک حجت نہیں ہوتی۔ خطیب بغدادی فرماتے ہیں: ابن لہیعۃ ذاہب الحدیث (تاریخ بغداد ج۱۱ص۱۱۳ ) یعنی ابن لہیعہ کی حدیث بے کار ہے۔ فتح الباری میں ہے: ابن لہیعۃ ضعیف (ص۱۲ پ۱ وص۹۷ پ۶) میزان الاعتدال میں ہے: ضعیف لا یحتجّ بہ، لیس بقوی، مفرط بالتشیع یعنی ابن لہیعہ ضعیف ہے قوی نہیں ہے اس سے دلیل نہیں لی جاتی یہ غالی شیعہ ہے۔ (ج۲)
خلاصۃ التذہیب میں ہے: قال یحیٰ بن معین لیس بالقوی قال مسلم ترکہ وکیع ویحیٰ القطان وابن مہدی یعنی ابن معین نے فرمایا کہ ابن لہیعہ قوی نہیں ہے۔ امام مسلم نے فرمایا کہ وکیع اور یحییٰ قطان اور ابن مہدی کے نزدیک متروک ہے۔ تہذیب التہذیب میں ہے: کان یحیی بن سعید لایراہ شیئا وعن ابن مہدی لا احمل عندہ قلیلا ولا کثیرا وقال احمد ما حدیث ابن لہیعۃ بحجّۃ وقال قتیبۃ لا نکتب حدیث ابن لہیعۃ وقال البخاری ترکہ یحییٰ وقال ابن قتیبۃ ضعیف وقال ابن معین ضعیف لا یحتج بحدیثہ وقال الجوزجانی لا ینبغی ان یحتج بہ لا یعتبر بروایتہ وقال ابو حاتم وابو زرعۃ ابن لہیعۃ امرہ مضطربہ وقال ابو عبدالرحمن لا یحتج بہ وقال محمد بن سعد کان ضعیفا وقال مسلم ترکہ ابن مہدی ویحییٰ بن سعید ووکیع وقال الحاکم ذاہب الحدیث وقال ابن حبان یدلس (ج۵)
یعنی ابن لہیعہ کو یحییٰ ثقہ نہیں کہتے ابن مہدی کا قول ہے کہ اس سے تھوڑا بہت کچھ نہیں لینا چاہئے۔ امام احمد نے فرمایا کہ ابن لہیعہ کی حدیث حجت نہیں قتیبہ نے کہا کہ اس کی حدیث ہم نہیں لکھتے ۔ امام بخاری نے فرمایا کہ یحییٰ نے اس کو متروک کہا ہے۔ ابن قتبیہ نے اس کو ضعیف فرمایا ہے۔ ابن معین نے بھی اس کو ضعیف ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ جوزجانی نے کہا کہ نہ تو اس سے حجت پکڑنی چاہئے نہ اس کی روایت سے دھوکہ کھانا چاہئے۔ ابو حاتم وابوزرعہ نے اس کی حدیث کو مضطرب کہا ہے۔ عبدالرحمن کے باپ نے بھی اسے ناقابل احتجاج سمجھا ہے۔ ابن سعد نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ امام مسلم نے فرمایا ہے کہ ابن مہدی اور یحییٰ اور وکیع کے نزدیک وہ