گیارہواں جھوٹ… ’’مولویوں میں شیطنت بھری ہوئی ہے اہلحدیث ۱۷؍نومبر ۱۹۱۱ئ‘‘ یہ بھی مولانا امرتسری کا مضمون تحریر کردہ نہیں ہے۔ بلکہ صیغہ منقولات میں اخبار برق سخن بنگلور سے منقول ہے۔ پس یہ تحریر اڈیٹر برق سخن بنگلور کی ہے۔، نہ ایڈیٹر اہلحدیث امرتسر کی۔
بارہواں جھوٹ… ’’اہلحدیث بھی بنی اسرائیل کی طرح (تاآخر) اہلحدیث ۲۵ ستمبر ۱۹۳۱ء ص۱۱‘‘ یہ مضمون مولوی عبداللہ موسیٰ مقیم چمپوا کا لکھا ہوا ہے۔ نہ مولانا ابو الوفاء کا۔ تعجب ہے کہ مجاہد نے نامہ نگاروں کے خیالات کو مولانا امرت سری کے سر کیسے مونڈھ دیا؟ کرے کوئی بھرے کوئی؟ یاللعجب
تیرہواں جھوٹ… ’’مولوی ثناء اللہ نے یہ معیار قرار دیا تھا کہ جھوٹے دغا باز کو لمبی عمر ملتی ہے۔ اہلحدیث ۲۶؍اپریل ۱۹۰۷ء اسے سفید جھوٹ کہوں یا سیاہ جھوٹ؟ کیونکہ یہ تحریر بھی مولوی صاحب ممدوح کی نہیں ہے۔ بلکہ اسی کے بعد بریکٹ میں ’’نائب ایڈیٹر‘‘ مرقوم ہے۔ پھر یہ معیار مولوی صاحب موصوف کا مقرر کردہ کیونکر ہوگیا؟ اور یہ نائب ایڈیٹر نے بھی مرزا قادیانی کی تحریر ’’میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی عمر نہیں ہوتی ۔(اشتہار آخری فیصلہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)‘‘ کی تردید میں یہ دکھانے کے لئے کہ مرزا قادیانی نے نص قرآن کے خلاف لکھا ہے ان کی عبارت پر ایک کا حاشیہ بنا کر نوٹ دیا ہے کہ آپ اس دعویٰ میں قرآن کے خلاف لکھ رہے ہیں (تا) قرآن میں یہ لیاقت؟‘‘ پھر یہ معیار کیونکر ہوگیا اس میں تو مرزا کی قرآن دانی کی خبر لی گئی ہے اور آگے بریکٹ میں صاف صاف مرقوم ہے۔ ’’نائب ایڈیٹر اخبار اہلحدیث‘‘ جو اندھوںکو نظر نہیں آتا۔ ولہم اعین لا یبصرون بہا۔ نیز مولاناثناء اللہ صاحب نے اخبار اہل حدیث رجب ۱۳۲۶ھ کے ص۳ پر صاف صاف اعلان بھی کردیا تھا کہ ’’و ہ نوٹ میرا نہ تھا بلکہ راقم کا اپنا نام پیچھے اس کے لکھا تھا۔ (ج۵ ص۳۹)‘‘ یہ ہے ’’خاکسار غلام احمد مجاہد‘‘ کے اشتہار کی حقیقت جس سے سوائے اکاذیب کے سچائی کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔
فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ
وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم
مدن پورہ کے اشتہار کے جواب کا جواب
مجاہد صاحب نے انجمن اشاعت الاسلام کے جواب میں سات نمبر قائم کئے ہیں۔ ان کی بھی حقیقت ملاحظہ ہو: