چوتھا جھوٹ… ’’مساوی وقت دینے سے راہ فرار اختیار کی۔‘‘ حالانکہ مساوی وقت دیا گیا تھا اور تحریر دے دی گئی تھی کہ ’’مولانا جتنی دیر تقریر فرمائیں گے۔ اتنا ہی وقت گفتگو کے لئے دیا جائے گا۔ ‘‘ پھر تحدید کے وقت بھی مساوی کی گئی تھی یعنی پانچ پانچ منٹ۔
پانچواں جھوٹ… ’’حفظ امن کی ذمہ داری سے بھی انکار کردیا‘‘ حالانکہ لکھ دیا گیا تھا کہ ’’ذمہ دار ہمارے اور آپ کے اخلاق ہوں گے۔‘‘ اب اور کس طرح ذمہ داری لی جاسکتی تھی۔‘‘
چھٹا جھوٹ… ’’ہمیشہ ہمارے ساتھ درندگی برتی جاتی ہے۔‘‘ حالانکہ ہر جگہ شرارت مرزائیوں کی ہوتی ہے اس لئے مصری عدالت نے مرزائیوں پر جرمانہ بھی کیا ہے۔
(ملاحظہ ہو اخبار الفتح قاہرہ نمبر۳۷۷، ۱۱؍رمضان ۵۲ھ)
ساتواں جھوٹ… ’’امرتسر نے احمدیوں کو زخمی کیا‘‘ صحیح فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی لیکن اخباری رپورٹ اس کے بالکل برعکس ہے۔ بٹالہ کا واقعہ قتل اور قادیان میں لڑائی وغیرہ کے واقعات نیز مصر کا قصہ ہمیں مجاہد کے بیان کو صحیح سمجھنے سے مانع ہیں۔
آٹھواں جھوٹ… ’’علماء نجدوحرم نے مولوی ثناء اللہ کے برخلاف فتویٰ دیا۔‘‘ حالانکہ علمائے نجدوحرم کے بڑے افسر قاضی القضاہ عبداللہ بن بلیہد نے بحکم جلالۃ الملک امام عبدالعزیز شاہ مملکت عربیہ سعودیہ جو تحریر دی تھی وہ یہ ہے رجع کل منہا الی تجدید عقد الاخوۃ واجتناب ماینافی ذلک جس کا ترجمہ (قادیان کے خلیفہ اول حکیم نور الدین آنجہانی کے نواسے کے مرتب کئے ہوئے ’’فیصلہ مکہ‘‘ کے (جس سے مجاہد صاحب نے نمبر۱ ونمبر۲ ونمبر۳ نقل کیا ہے۔) صفحہ ۱۳ میں) یوں منقول ہے۔ ’’چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے رجوع کرلیا ہے۔ اس لئے وہ اب ہمارا بھائی ہے۔‘‘ یہ مجاہد صاحب کو نظر نہ آیا۔ افسوس!
نواں جھوٹ… ’’مولوی ثناء اللہ مولویوں اور حدیثوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ شعر مولوی اب طالب دنیا جیفہ ہوگئے…الخ۔ ‘‘ حالانکہ یہ شعر مولوی ثناء اللہ صاحب کا نہیں ہے۔ بلکہ دیوان گلشن ہدایت کا ہے اور اخبار اہل حدیث ۳۰؍مئی ۱۹۱۳ء میں جس کا حوالہ مجاہد نے دیا ہے کہیں بھی یہ شعر مندرج نہیں ہے۔ یہ دسواں جھوٹ ہے۔ البتہ اخبار اہل حدیث ۳۱؍مئی ۱۹۱۲ء میں محمد حسین خاں الہ آبادی کے مضمون میں شعر مذکور مرقوم ہے۔ اور ایڈیٹر نامہ نگاروں کی رائے سے متفق نہیں ہوتا۔ پھر مولانا ثناء اللہ صاحب کا وہ عندیہ کیونکر ہوگیا۔