جیسے اصحاب بدر کی حکومت کے زمانہ میں کابل کے لوگ پکار رہے تھے۔ (وہ بھی اردو میں) کہ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا‘‘ یہاں آئے اور بادشاہ بن کر حکومت کرے۔ چنانچہ نادر خاں پہنچے اور بادشاہ بن گئے۔ گویا پیشین گوئی پوری ہوگی۔ اچھا پھر کیا باقی رہا کہ جب نادر خان شہید ہوئے۔ یہی الہامی پیشین گوئی پھر یاد آگئی اور لکھ دیا کہ ’’اس کی موت واقع ہوگئی حتیٰ کہ سب ملک (کابل کا) چلا اٹھے گا(اردوزبان میں) کہ آہ نادر شاہ کہاں گیا؟(ص۸)‘‘ کیا خوب ایک ہی پیش گوئی تخت پر بھی اور تختہ پر بھی؟
بات وہ کہ نکلتے رہیں پہلو دونوں
طرہ یہ کہ کابل والے پشتو اور فارسی سب بھول گئے لگے اردو زبان میں چلاّنے کہ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا؟‘‘ یہ اردو زبان کابلیوں کی مادری زبان کب سے بنی؟ یا یہ تو نہیں ہے کہ :
یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم
دراصل مذکور پیش گوئی کو شاہ کابل کی شہادت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئیوں زلزلہ وقحط وجنگ پر تو مذاق اڑایا جائے اور مرزا قادیانی تحریر فرمائیں۔ ’’اس درماندہ انسان کی پیش گوئیاں کیا تھیں۔ صرف یہی کہ زلزلے آئیں گے۔ قحط پڑیں گے۔ لڑائیاں ہوں گی… کیا ہمیشہ زلزلے نہیں آتے کیا۔ ہمیشہ قحط نہیں پڑتے… اس نادان اسرائیلی (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) نے ان معمولی باتوں کا پیش گوئی کیوں نام رکھا؟‘‘ (حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۴، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸) کیا ہمارا حق نہیں کہ اس کے جواب میں ہم بھی یوں کہیں کہ ’’اس مراقی انسان (مرزاقادیانی) کی پیش گوئیاں کیا تھیں صرف یہی کہ زلزلہ آئے گا۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ ج۵ص۹۲) سخت بلائیں نازل ہوں گی۔ (حقیقت الوحی ص۳۶۴، خزائن ج۲۲ ص۳۲۴) نادر شاہ کہاں گیا؟ (۳؍مئی ۱۹۰۵ئ) کیا ہمیشہ زلزلے نہیں آتے؟ کیا سخت بارشیں نہیں ہوتیں؟ کیا بادشاہ مرا نہیں کرتے؟ اس ذیابطیسی ومراقی نے ان معمولی باتوں کا نام پیش گوئی کیوں رکھ لیا؟ کیونکہ ’’پیش گوئی سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کے کئے بطور دلیل کے کام آسکے لیکن جب ایک پیش گوئی خود دلیل کی محتاج ہے تو کس کام کی ہے؟(تحفہ گولڑویہ طبع سوم ص۱۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۰۱)‘‘ ناظرین!
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
مدن پورہ کا اشتہار
مولوی غلام احمد مجاہد نے ٹریکٹ مذکور کے ص۲۶ سے ص۲۸ تک انجمن اشاعت