زبان‘‘ کے محاورہ کے خلاف کیا ہے یا نہیں؟ پھر ’’بہشتی مقبرہ‘‘ سے جو آواز مرزا قادیانی کی سنائی دے اسے بذریعہ اشتہار شائع کردو۔ پھر ہم تم کو نہر کے معنے منہر اور قبر کے معنے مقبرہ عربی زبان سے ثابت کردیں گے۔انشاء اﷲ!
نمبر۶… میں مجاہد صاحب نے وہی اوپر والی بات پھر اگل دی ہے کہ ’’اس حدیث کو کسی محدث… نے اپنی کتاب میں درج نہیں کیا۔‘‘ (ص۲۲) یہ مجاہد کا قصور نظر ہے۔ اسی مبحث کے نمبر۱ کے جواب میں ہم محدثین کی ان کتابوں کو نام بنام لکھ آئے ہیں جن میں حدیث مذکور درج کی گئی ہے۔ فانظر واثمہ۔
مجاہد صاحب کو اپنی حرکات شنیعہ پر تو کبھی تعجب نہیں آیا کہ اپنی غرض فاسد کے لئے تو اوّل مجہول حدیثوں سے استناد کرتے ہیں اور ہم جو صریح وصحیح حدیثیں پیش کرتے ہیں تو تعجب کرتے ہیں کہ ’’کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی جس میں آسمان کا لفظ ہو…الخ! (ص۲۲)‘‘ حالانکہ اسے ہم پیش کر چکے ہیں مگر:
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ؟
جواب دلیل نمبر۱۱
ہمارے دلائل کی فہرست (جس کا مجاہد صاحب جواب دینے بیٹھے تھے اس) میں سوائے قرآن اورحدیث کے اور کسی کا بھی کوئی قول نہیں پیش کیا گیا تھا لیکن مجاہد صاحب نے اپنے مرزا کے ایک قول کو جسے ہم نے (اظہار حقیقت ص۳) میں بطور الزام کے لکھا تھا اسے ہماری دلیل بنا دیا ہے اور وہ بھی نمبر۱۱ کی دلیل سبحان اﷲ! لکھتے ہیں کہ ’’جب تک مرزا نے نہیں لکھا تھا اس وقت تک عیسیٰ زندہ نہ تھے جب مرزا نے لکھ دیا تو عیسیٰ زندہ ہوگئے۔‘‘ (ص۲۲) حیات عیسیٰ کا مدار کتاب وسنت پر ہے نہ قول مرزا پر۔ لیکن جو لوگ مرزا کے قول کو وحی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کو ملزم کرنے کے لئے مرزا کا قول پیش کیا گیا تھا۔ لیکن مجاہد صاحب اپنے پیغمبر مرزا کو رسم ورواج کا پابند بتاتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں ’’رواجی طور پر لکھ دیا دعویٰ سے پہلے۔‘‘ (ص۱۲) سنئے جناب! مرزا کا قول حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کا اس کتاب سے پیش کیا گیا تھا جس کا نام ہے براہین احمدیہ جو احمدیوں کے دلائل کی کتاب ہے۔ جو الہامی تائید سے لکھی گئی اور مرزا قادیانی اس وقت بقول خود ر سول ہوچکے تھے۔ (ایام الصلح اردو ص۷۵، خزائن ج۱۴ ص۳۰۹) نیز کتاب مذکور کو ’’آنحضرتﷺنے (فحوائے خواب مرزا) قبول بھی فرمالیا تھا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۲۴۹، خزائن ج۱ ص۲۷۵) اور آنحضرت ﷺ نے