الحدیث۔ عند الضرورت ہم اس کی بیسیوں مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ رہا یہ امر کہ:’’ حضرت عائشہؓ نے کہہ کیوں نہ دیا (تا) اجازت کی کیا ضرورت؟‘‘(ص۲۱)
قابل توجہ نہیں ‘ وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضرت عمرؓ کو پیغام نہیں دیا تھا کہ مجھ سے اجازت مانگو۔ اجازت مانگنا فعل عمرؓ ہے اور وہ بھی حسب ہدایت قرآنی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا…الخ! (نور:۲۷)‘‘ یعنی دوسرے کے گھروں میں بغیر اجازت کے نہ جائو۔ روضہ نبوی حضرت عائشہؓ کا گھر تھا اللہ نے ازواج نبی کے گھروں کو ان کی طرف منسوب فرمایا ہے: ’’وقرن فی بیوتکن (احزاب:۳۳)‘‘ اس لئے حضرت عمرؓ کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت ہوئی اور حضرت عائشہؓ کے اجازت دے دینے کی وجہ ان کا وہی خواب تھا۔ ورنہ ان کو حق تھا کہ اجازت نہ دیتیں جیسا کہ بہتوں کو اجازت نہیں دی کماسیاتی۔ پس اجازت دے دینا ہی کہہ دینا ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ مجاہد صاحب کس زبان سے کہتے ہیں کہ ’’وہ حدیث جو پیش کی جاتی ہے وہ وضعی ہے نہ کہ سچی۔ (۲۱) جب کہ مرزاقادیانی خود بھی اس حدیث کو پیش کرکے خود کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں کمامرّ۔ کیا مرزا قادیانی بقول مجاہد وضعی حدیث بیان کیا کرتے ہیں؟
الجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
نمبر۴… میں مجاہد صاحب جولانی قلب یوں دکھاتے ہیں ’’حضرت عائشہ نے کیوں یہ فرمایا کہ میں نے اسے اپنے لئے رکھا ہوا تھا (تا) معلوم ہوا کہ وہاں اور جگہ نہیں ہے۔(ص۲۱)‘‘ حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’کنت اریدہ لنفسی ولااژنہ الیوم علیٰ نفسی (بخاری پ۶ وپ۱۴)‘‘ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو مجاہد صاحب سمجھتے ہیں کہ اسے اپنے لئے رکھا تھا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ میرا ارادہ تھا کہ یہاں پہلے کی طرح بے تکلف رہتی سہتی۔ لیکن اب بوجہ ایک اجنبی کے وہاں آجانے کے مجھے تکلیف ہوگی تو بھی میں اپنی جان پر ایثار کروں گی اور اس تکلیف کو برداشت کروں گی۔ جیسا کہ ابن سعد نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا: ’’لم اضع ثیابی عنی منذ دفن عمر فی بیتی (فتح)‘‘ یعنی جب سے عمر میرے گھر میں دفن ہوئے کبھی میں نے اوڑھنی تک نہیں اتاری۔ اس تکلیف کو تاحیات برداشت کیا لیکن ساری عمر اسی حجرہ میں ہی رہیں۔ اگر وہاں جگہ نہ تھی تو حضرت عائشہ وہاں کیوں کر رہتی تھیں؟ اور کیوں مرنے کے وقت اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیرؓ کو وصیت کی تھی کہ لا تدفنی معہم (بخاری پ۶، پ۳۰) مجھے یہاں دفن نہ