اچھا اصول آپ نے وضع فرمایا۔ جس کا دنیا میں کوئی قائل ہی نہیں۔
این کا داز تو آید وقدنی چنیں کنند
حالانکہ ’’اظہار حقیقت‘‘ کی عبارت ص۹سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کو تیسرا چاند مان لینے پر حضرت عائشہ کا خواب (جو مؤطا میں مذکور ہے) اس حدیث کے عین مطابق ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ اعتراض کہ ’’حضرت ابو بکر نے غلط سمجھا۔‘‘ (ص۲۰) بالکل غلط ہے حضر ت ابو بکرؓ نے وفات رسول پر جو فرمایا تھا ہذا احدا قمارک (مؤطا ص۸۰ ومستدرک حاکم ص۶۰ ج۳) اس میں الشمس کو قمر تغلیباً فرمایا تھا‘ جیسے سورج اور چاند کو قمرین کہتے ہیں۔ خود آپ کے پیغمبر مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
لہ خسف القمر المنیر وان لی
غسار القمران المشرقان اتنکر
(اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳)
اس شعر میں مرزا قادیانی نے سورج کو قمر لکھا ہے اسی طرح اقمار میں آنحضرتﷺ کو سورج اور بقیہ تین اور دفن ہونے والوں کو چاند فرمایا ہو تو کیا اعتراض؟ اگر آپ کو اس ’’تاویل‘‘ کے ماننے میں تردد ہو تو ہم بھی آپ کو اس کے ماننے پر مجبور نہیں کرتے اور نہ ہم اس سے بقول آپ کے ’’چھٹکارا‘‘ چاہتے ہیں۔ بلکہ اس کا دوسرا مطلب جو واقعی اور اصل مطلب ہے۔ تحریر کرتے ہیں‘ سنئے۔ حضرت عائشہؓ کو خواب میں تین چاند اس لئے دکھائے گئے کہ ان کی زندگی میں تین ہی چاند ان کے حجرہ میں دفن ہونے والے تھے اور وہ صرف تین کو ہی دیکھنے والی تھیں۔ آنحضرتﷺ کو، حضرت ابو بکرؓ کو، حضرت عمرؓ کو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ حضرت عائشہ کی زندگی میں دفن ہونے والے نہیں تھے اس لئے حضرت عائشہ کو چار چاند نہیں دکھائے گئے۔ لیکن جب مرزاقادیانی کو تسلیم ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا تو اب مرزائیوں کو انکار کیوں ہے؟ یاللعجب!
نمبر۳… میں مجاہد صاحب ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ ’’حضرت عمرؓ نے اپنے دفن ہونے کے لئے حضرت عائشہ سے اجازت کیوں مانگی؟ (ص۲۱)‘‘ اس لئے اجازت مانگی کہ حضرت عمرؓ نے خواب مذکور نہیں دیکھا تھا نہ ان سے آنحضرتﷺ نے اس امر میں کچھ فرمایا تھا کہ تم میرے گھر میں مدفون ہوگے نہ حضرت عمرؓ نے اس باب میں کچھ آنحضرتﷺ سے سنا تھا۔ اور اسی ایک امر پر کیا موقوف ہے۔۔ حضرت عمرؓ ودیگر صحابہ بہت سی حدیثیں بالمشافہ آنحضرتﷺ سے نہیں سنیں بلکہ بعد میں ان کو دیگر صحابہ سے معلوم ہوئیں۔ کما لا یخفی علیٰ من لہ ادنیٰ مسکۃ فی