ص۲) اور ازالہ اوہام میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی ہو جو آنحضرتﷺ کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۷۰، خزائن ج۳ ص۳۵۲) اور کشتی نوح میں ارقام فرماتے ہیں: ’’یہی بھید ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا۔‘‘ (ص۱۵ مطبوع قادیان، خزائن ج۱۹ ص۱۶) آپ کے خلیفہ محمود میاں انوار خلافت میں بیان کرتے ہیں ’’آنحضرت نے فرمایا ہے کہ وہ میری قبر میں دفن ہوگا۔‘‘ (ص۵۰) کہئے مجاہد صاحب یہ آپ کے بزرگان دین بلکہ آپ کے پیغمبر اور ان کے خلیفہ تو حدیث مذکور کو آنحضرت کا قول تسلیم کرتے ہیں اور آپ ہماری مخالفت میں یہی کہے جاتے ہیں کہ ’’آنحضرت کی طرف غلط منسوب ہے۔ (ص۲۰)‘‘ حالانکہ مرزا قادیانی جب کسی حدیث کو قبول کرتے ہیں تو خدا سے علم پاکر۔
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ کا حاشیہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۵۱)
پس ان کی قبول کردہ حدیث سے آپ کسی طرح بھی انکار نہیں کرسکتے۔ اور ان کا اس حدیث کو قبول کرنا بلکہ اس سے استناد کرنا ان کے ان الفاظ سے کھلا ثابت ہے کہ وہ اپنی پیشن گوئی کی تصدیق حدیث مذکور سے فرماتے ہیں (ضمیمہ انجام آتھم کا حاشیہ مذکورہ ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷) اور الفاظ یدفن معی فی قبری کا ترجمہ کشتی نوح میں نقل کرکے لکھتے ہیں۔ ’’وہ میں ہی ہوں۔‘‘ (ص۱۳، خزائن ج۱۹ ص۱۴) پس مجاہد صاحب نے اپنے ٹریکٹ نمبر۲ کے آخری صفحہ (نمبر۲۴) میں بعنوان ’’ایک اور عذر کی حقیقت‘‘ لکھا ہے کہ حدیث یدفن معی وضعی ہے اور ’’مرزا قادیانی نے اسے اپنے مخالفوں کے سامنے اس لئے پیش کیا ہے کہ مخالف لوگ اس حدیث کو مانتے ہیں حضرت مرزا قادیانی نہیں مانتے۔‘‘ کتنا غلط اور جھوٹ بلکہ صریح دجل اور فریب ہے۔ مجاہد نے ناظرین کی آنکھوں میں خاک جھونکی ہے۔ ہم نے مرزا قادیانی کی عبارتیں مختلف کتب سے جو نقل کی ہیں ان سے مجاہد کے ’’عذر کی حقیقت‘‘ کی اصلی حقیقت خوب واضح ہوجاتی ہے۔ کہ مرزا قادیانی حدیث مذکور کو صاف صاف حدیث رسول تسلیم کرکے اس کا مصداق اپنی ذات کو قرار دیتے ہیں۔ مجاہد صاحب:
باندھی ہے تم نے زیر فلک جھوٹ پر کمر
شاید بگڑ گیا ہے کہیں پاٹ نیل کا
نمبر۲… میں مجاہد صاحب یوں گل افشانی فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ کے خواب کے بھی خلاف ہے۔‘‘ (ص۲۰) حدیث نبوی اگر کسی امتی کے خواب کے خلاف یا قول کے خلاف ہونے سے غلط ہو جائے تو آج احادیث کا سارا دفتر مردود ہوجائے گا۔ اور اسلام دنیا سے رخصت۔ یہ