(ج۸ ص۳۳۸)‘‘ کو مسند احمد میں سند صحیح سے بروایت ابی ہریرہ مرفوعاً مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ زمین میں چالیس سال ٹھہریں گے اور اس حدیث مشکوۃوالی میں یمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری وارد ہے۔ (مشکوٰۃ ص۴۷۲)
پس شارح مواہب نے حدیث مذکور کی تصحیح دو سری حدیث سے کردی اور خود اس کی سند پر کوئی کلام نہ کیا نہ اس کو ضعیف کیا نہ موضوع بتایا نہ بے اصل ٹھہرایا۔ اسی طرح ملاعلی قاری نے بھی شرح مشکوٰۃ میں حدیث مذکور پر کوئی جرح نہیں کی۔ اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی شرح فارسی مشکوٰۃ میں حدیث مذکور پر کوئی جرح نہیں کی خود محدث ابن جوزی جو نہایت متشدد ہیں اور کئی صحیح اور حسن حدیثوں کو موضوع کہہ دیا ہے۔ وہ اپنی دو دو کتابوں (کتاب الوفاء اورکتاب المنتظم) میں حدیث مذکور نقل کرتے ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ صاحب کنزالعمال اور صاحب مشکوٰۃ بھی اس حدیث کو نقل کرکے خاموش ہوجاتے ہیں۔ علامہ ابن المراغی تاریخ مدینہ میں رواہ علامہ سمہودی وفاء الوفاء (تاریخ مدینہ) میں اس روایت کو درج کرتے ہیں اور کچھ نہیں بولتے خود قسطلانی مواہب میں نقل کرکے سکوت کرتے ہیں۔ امام قرطبی تذکرہ اور بقاعی سر الروح میں اس کو بلا جرح نقل کرتے ہیں۔ حجج الکرامہ ص۴۲۹، ۴۳۰ (جس کا مرزائی بہت حوالہ دیتے ہیں) میں اس حدیث کو نقل کرکے کوئی کلام نہیں کیا۔‘‘ اسی طرح بہت سے محدثین اور مؤرخین اس حدیث کو بلا جرح وقدح نقل کرتے چلے آئے ہیں۔ حتیٰ کہ خود مرزا قادیانی نے بار بار اس روایت کو نقل کیا اور اس سے استناد کیا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔
مرزا قادیانی کا حدیث مذکور کو ماننا
مرزا قادیانی حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم میں لکھتے ہیں: ’’اس پیش گوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ یتزوج ویولدلہ… اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں… مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد خاص اولاد ہے… اس جگہ رسول اللہﷺ ان سیہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی (ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷) دیکھو مرزا قادیانی حدیث مذکور کو فرمان رسول تسلیم کررہے ہیں اور ان کا ایک سیہ دل مرید لکھتا ہے کہ ’’آنحضرتﷺ کی طرف غلط منسوب کی گئی ہے۔ (ص۱۰) اب خاص طور سے فیدفن معی فی قبری کے متعلق مرزا قادیانی کے اقوال ملاحظہ ہوں۔ اخبار الحکم میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں: ’’آنحضرت نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود کی قبر میری قبر ہوگی۔‘‘ (الحکم ۱۰؍مئی ۱۹۰۳ء