کے مصنفوں نے سندیں ترک کر دیں ہیں اور تفسیر ابن جریر وابن کثیر ان تفسیروں میں سے ہیں جو سندیں بیان کرتے ہیں۔
پس ظاہر ہے کہ یہ دونوں تفسیریں ان تفاسیر میں سے نہیں ہیں جن میں بوجہ ترک اسانید نقائص پیدا ہوگئے۔ افسوس ہے مجاہد صاحب کی خیانت پر کہ اتقان سے جو عبارت نقل کی ہے اس کے اوپر کی عبارت قصداً چھوڑ گئے جو یہ ہے: ’’بعدہم ابن جریر الطبریٰ وکتابہ اجل التفاسیر واعظمہا (الیٰ) فہو یفوقہا بذلک (اتقان مصری ج۲ ص۱۹۰)‘‘ یعنی تفسیر ابن جریر طبری تمام تفسیروں میں بڑی جلالت اور عظمت والی ہے اور سب میں فوقیت رکھتی ہے‘ پھر آگے لکھتے ہیں: ’’یقول علیہ تفسیر الامام ابن جریر الطبریٰ الذی اجمع العلماء المعتبرون علیٰ انہ لم یؤلف فی التفسیر مثلہ (ج۲ ص۱۹۱)‘‘ یعنی جس تفسیر پر بھروسہ کرنا چاہئے وہ تفسیر ابن جریر ہے جس کے بارے میں اجماع ہوچکا ہے کہ تفسیر میں اس جیسی کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی۔ اس لئے مرزا قادیانی نے اس کو معتبر مانا ہے۔ (چشمہ معرفت کا حاشیہ ص۲۵۱، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱) اسی تفسیر میں ان عیسیٰ لم یمت کی حدیث بالسند منقول ہوئی ہے کہئے مجاہد صاحب کیا سمجھے؟
ضیا کو تیرگی اور تیرگی کو جو ضیا سمجھے
پڑیں پتھر سمجھ ایسی پہ وہ سمجھے تو کیا سمجھے
جواب دلیل نمبر۱۰
ہماری فہرستوں میں بیسویں دلیل حدیث ثم یموت فیدفن معی فی قبری مسطور تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول مریں گے اور مقبرہ رسول میں دفن ہوں گے۔ مجاہد صاحب نے حسب عادت اس حدیث سے بھی انکار کردیا ہے اور لکھا ہے ’’آنحضرتﷺ کی طرف غلط منسوب کی گئی ہے۔(ص۲۰)‘‘ اور اس دعویٰ کے ثبوت میں چھ نمبر قائم کئے ہیں۔ نمبر۱ میں لکھا ہے کہ ’’مولف شرح مواہب اللدنیۂ فرماتے ہیں واﷲ اعلم بصحۃ خدا ہی اس کی صحت کو جانے۔ (ص ایضاً)‘‘ خدا تو سب کچھ جانتا ہے وہ اس دجل کو بھی جانتا ہے جو یہاں آپ نے کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ: ’’واﷲ اعلم‘‘ مصنف مواہب کا قول تھا اسے آپ نے شارح مواہب کا قول بنا دیا ملاحظہ ہو (زرقانی شرح مواہب ج۸ ص۳۳۸) علاوہ ازیں زرقانی شارح مواہب تو حدیث مذکور کی تائید میں ایک اور بھی صحیح حدیث نقل کرتاہے۔ چنانچہ لکھتا ہے: ’’وعند احمد بسند صحیح عن ابی ہریرۃ رفعہ انہ یمکث فی الارض اربعین سنۃ