اخذ کیا۔ ان سے ربیع نے ان سے ابو جعفر نے ان سے ان کے بیٹے عبداللہ نے ان سے اسحق نے ان سے مثنیٰ نے ان سے ابن جریر طبری نے۔ (ج۳ ص۱۸۳) تفسیر ابن جریر کتب متداولہ میں سے ہے اور اس میں حدیث کی سند متصل بھی موجود ہے‘ پھر مجاہد صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’سند کا ذکر نہیں‘‘ اور ’’کتب متداولہ میں باسناد ومتصل ضرور ذکر ہوتا(ص۱۷)‘‘ کتنا غلط اور دلیل جہالت ہے۔ محمد بن جریر طبریٰ اتنے بڑے پایہ کا محدث ہے کہ ابن خلکان وغیرہ نے ان کو ائمہ مجتہدین میں سے لکھا ہے خود آپ کے مرزا قادیانی نے چشمہ معرفت میں لکھا ہے کہ : ’’ابن جریرؓ… نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے۔(حاشیہ ص۲۵۰، خزائن ج۲۳ ص۳۶۱)‘‘ مجاہد صاحب نے حدیث مذکور کے لئے‘‘دنیائے اسلام کی معتبر ومستند کتب ص۱۷ کی ہی خواہش ظاہر کی ہے جب مرزا قادیانی نے ابن جریر کو معتبر اور امام حدیث مان لیا ہے تو اب مجاہد صاحب ودیگر قادیانی حضرات کو حدیث ان عیسیٰ لم یمت کو فرمان رسول مان لینے میں کیا عذر ہے؟
رہ گیا یہ انوکھا مطالبہ کہ بخاری ومسلم وترمذی ابو دائود وابن ماجہ نسائی میں ذکر ہونا چاہئے۔(ص۱۷)‘‘ محض مہمل اور ہٹ دھرمی ہے جبکہ خود مرزا قادیانی نے بہت سی حدیثیں اپنے مدعی کے اثبات کے لئے صحاح ستہ کے علاوہ دیگر کتب احادیث سے پیش کی ہیں۔ جس کا نمونہ ہم ’’جواب دعوت‘‘ کے ص۳۱ پر دکھا چکے ہیں۔ اور خود محدثین کرام بھی تمام احادیث الرسول کو صحاح ستہ میں محصور نہیں مانتے۔
حدیث عیسیٰ لم یمت کے راوی صحابی کا نام
مجاہد صاحب کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ رسول کریم سے یہ ارشاد سننے والے کا نام تک مذکور نہیں ہے۔ (ص۱۷)‘‘ صحابی کے نام کا مذکور نہ ہونا حدیث کی صحت میں قادح نہیں ہوتا مقدمہ ابن الصلاح میں ہے: ’’فالجہالۃ بالصحابی غیر قادمۃ لان الصحابہ کلہم عدول (مصری ص۲۲)‘‘ یعنی صحابہ چونکہ سب عدول (ثقہ) ہیں اس لئے ان کے نام کا معلوم نہ ہونا حارج نہیں ہے۔ تاہم اگر مجاہد صاحب کی یہی خواہش ہے کہ وہ حدیث ان عیسیٰ لم یمت کی روایت کرنے والے صحابی کا نام ہی ضرور معلوم کریں گے تو ہم خود امام حسن بصری سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔ پس سنئے امام حسن بصری نے اپنے شاگرد یونس بن عبید سے فرمایا تھا: ’’کل شیء جعلنی اقول قال رسول اﷲﷺ فہو عن علی بن ابی طالب غیرانی فی زمان لا استطیع ان اذکر علیا (تہذیب الکمال للمزی)‘‘ یعنی جتنی حدیثوں میں، میں قال رسول اﷲ کہوں وہ حضرت علیؓ سے مجھے پہنچی ہیں۔ میں ایسے (ظالم حجاج کے) زمانہ میں ہوں کہ حضرت علیؓ کا نام