مجاہد صاحب آگے لکھتے ہیں’’دوسری حدیث میں دجال کا بھی بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا جانا مذکور ہے۔ (ص۱۶)‘‘ لیکن اس حدیث میں یہ نظر نہ آیا کہ رسولﷺ فرماتے ہیں: ’’بینما انا نائم رائیتنی اطوف بالکعبۃ فاذا رجل احمر (اے قولہ) قالوا الدجال (صحیح مسلم مصری ج۱ ص۸۲)‘‘ یعنی میں نے سوتے ہوئے خواب میں دیکھا کہ میں طواف کعبہ کررہا ہوں۔ اچانک ایک سرخ رنگ کا آدمی (تا) لوگوں نے کہا یہ دجال ہے۔ پس جب حدیث میں صاف طور سے مصرح ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے‘ تو اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حج کو قیاس کرنا جبکہ ان کے لئے زمانہ آئندہ کی خبر صراحت سے دی گئی ہے۔ قیاس مع الفارق ہے۔ اسی کو کہا ہے:
چہ نسبت خاک رابا عالم پاک
کجا عیسیٰ کجا دجال ناپاک
جواب دلیل نمبر۹
ہماری فہرست کی دلیل نمبر۱۶ ونمبر۱۷ کو نویں دلیل بنا دیا اور ساتھ ہی شکایت بھی کردی کہ ’’حدیث ان عیسیٰ لم یمت کا انجمن اشاعت اسلام نے حوالہ نہیں دیا۔(ص۱۷)‘‘حالانکہ انجمن اپنے ٹریکٹ نمبر ۶ کے ص۳۰ پر چار کتابوں کا حوالہ پیش کرچکی ہے۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن کثیر اور درمنثور پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’میں عبارت کو حدیث الرسول کہنا ہی غلط ہے۔(۱۷)‘‘ یہی تو آپ لوگوں کے ’’یہود صفت‘‘ ہونے کی دلیل ہے کہ جو حدیث آپ کے برخلاف ہو وہ حدیث الرسول نہیں ہے اور موضوعات واباطیل جن سے آپ کا مطلب نکلتا ہو وہ سب احادیث الرسول ہیں۔ جیسا کہ نمبر۷ کے تحت میں ہم بہ تفصیل لکھ آئے ہیں۔ سچ فرمایا رب العزت نے: ’’یحرفون الکلم من بعد مواضعہ یقولون ان او تیتم ہذا فخذوہ وان لم تؤتوہ فاحذروا (مائدہ:۳۱،۴۱)‘‘ یعنی بدل دیتے ہیں یہود کلام کو بعد اس کے کہ وہ اپنی جگہ پر ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ اگر تم کو یہ حکم ملے تو اس کو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دئے جائو تو مت ماننا۔‘‘ صدق اﷲ۔
آگے دلیل کیا خوب دیتے ہیں کہ اگر ’’یہ حدیث الرسول ہوتی… تو صحابہ کرامؓ…دوسروں کے پاس بیان کرتے…الخ! (ص۱۷)‘‘ صحابہ نے بیان نہیں کیا تو ہم تک یہ حدیث پہنچی کیونکہ بلاسند تو ہے نہیں۔ بلکہ آنحضرتﷺ کے ارشاد ان عیسیٰ لم یمت…الخ کو باب مدینۃ العلم مولیٰ علی مرتضیٰؓ نے سنا۔ ان سے حسن بصری (سید التابعین وشیخ الصوصفیہ) نے