بنون ثقیلہ ولام تاکید ہیں جو آئندہ زمانہ کی خبر دیتے ہیں۔ صحیح مسلم نمبر۴ میں ہے: ’’قال ﷺ والذی نفسی بیدہ لیہلن ابن مریم بفج الروحاء حاجا او معتمر او لیثنینہما (ج۱ ص۴۸۲، مطبوعہ مصر)‘‘ نبیﷺ کی تاکید قسم فرماتے ہیں کہ قسم اس خدا کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور ضرور احرام باندھیں گے یا تلبیہ پکاریں گے۔ حضرت عیسیٰ مقام فج الروحاء سے حج کا یا عمرہ کا یہ دونوں کو ملائیں گے۔ محدث ابن عساکر روایت لائے ہیں: یقول یہبط عیسیٰ ابن مریم فیصلی الصلوات یجتمع الجمع ویزید فی الحلال تجذیہ رواحلہ ببطن الروحاء حاجا او معتمراء (کنزالعمال ج۷ ص۲۶۷) فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم اتریں گے۔ نماز پنچوقتہ ونماز جمعہ پڑھائیں گے اور (شرع محمدی کی بعض حلال چیزوں کو بعض مفتیوں نے حرام کردیا ہوگا اسے وہ) حلال ٹھہرائیں گے، ان کی اونٹنیاں ان کو سوار کرکے وسط روحاء میں لائیں گے۔ حج یا عمرہ کے لئے۔ غرض میں کہاں تک حدیثیں لکھتا جائوں۔ کیا اب بھی کوئی عاقل کہہ سکتا ہے کہ ’’یہ آنحضرت کا ایک کشف ہے۔‘‘ یہ زمانہ آئندہ کی خبر ہے انصاف! انصاف!!
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر
مجاہد صاحب فرماتے ہیں ’’ایک حدیث میں حضرت موسیٰ کا بھی تلبیہ کرنا، اونٹنی پر سوار ہوکر شعائر اﷲ میں پھرنا مذکور ہے۔(ص۱۶)‘‘ اس حدیث میں لام تاکید بانون تاکید ثقیلہ کے ساتھ فعل نہیں وارد ہے۔ بلکہ کانی انظر الی موسیٰ فذکر من لونہ وشعرہ وارد ہے۔ (صحیح مسلم مصری ج۱ ص۸۱) دوسری روایت میں حین اسریٰ بی لقیت موسیٰ آیا ہے۔ (صحیح مسلم ص۸۱) یعنی شب معراج میں میں موسیٰ سے ملا۔ ان کا رنگ ایسا، بال ایسے، صورت، ایسی تھی گویا اس وقت بھی میں دیکھ رہا ہوں۔ وہ تلبیہ پکارتے ہوئے وادی (ارزق) سے گزر رہے ہیں۔ پس یہ دیکھنا شب معراج میں ہے نہ ’’کشف تعبیر طلب والحدیث یفصل بعضہ بعضا۔ مجاہد صاحب نے ازراہ تمسخر لکھا ہے۔ ’’یہ بھی اب عقیدہ رکھ لو حضرت موسیٰ بھی اسی جسم کے ساتھ آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ص۱۶ کیا آپ کا عقیدہ یہ نہیں ہے؟ کیا آپ کے پیر پیغمبر جناب مرزا قادیانی نے یہ نہیں لکھا ہے؟ کہ: ’’ہم پر فرض ہوگیا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لاویں کہ موسیٰ زندہ آسمان میں موجود ہے۔‘‘(نور الحق ج۱ ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۹) اس چیز کو ہم ’’جواب دعوت‘‘ کے ص ۱۱ پر تفصیل سے پیش کرچکے ہیں پھر کس منہ سے اس کے خلاف آج آپ بول پڑے؟ کہئے :
میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا