تصنیفات سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
خود فراموشی کند اتہمت دہد اغیار را
جواب دلیل نمبر۸
فہرست میں یہ دلیل نمبر۱۹ تھی مجاہد صاحب نے اس کا جواب تو کچھ نہ دیا البتہ ایک تاویل باطل کردی کہ ’’حضرت عیسیٰ مقام فج الروحاء سے حج کا تلبیہ پکاریں گے، یہ آنحضرتﷺ کا ایک کشف ہے۔ (ص۱۶)‘‘ حالانکہ حدیث مذکور میں آئندہ زمانہ کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کا لفظ لیہلن ہے۔ (ج۱ ص۴۰۸) اس میں نون ثقلیہ بالام تاکید آیا ہے جو مضارع کو خالص استقبال کے لیئے کردیتا ہے۔ اس پر تمام نحویوں کا اتفاق ہے۔ ملاحظہ ہو کافیہ ‘ مفصل‘ الفیہ، شرح ملا، رضی وتکملہ وغیرہ معنی النبیب میں ہے۔ اماالمضارع انکان حالا لم یوکدہما وان کان مستقبلا اکدبہما وجوباً (ص۲۲ ج۲) یعنی مضارع جب حال کے لئے ہوتا ہے تو نون ثقیلہ بالام تاکید اس پر نہیں ہوتا۔اور اگر استقبال کے معنے میں ہو تو لام ونون کا اس پر داخل ہونا واجب ہے۔ پس لیہلن کے معنیٰ ہوئے آئندہ زمانہ میں تلبیہ پکاریں گے۔ دیگر احادیث سے بھی اس معنے کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔ مسند احمد میں ہے قال ﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقتل الخنزیر ویمحو الصلیب… وینزل الروحاء فیحج منہا…الخ! (ج۲ ص۲۹۰) آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ اتریں گے خنزیر کو قتل کردیں گے‘ صلیب کو مٹا دیں گے۔ اور روحاء میں اتریں گے۔ وہاں سے حج کریں گے۔ محدث ابن جریر حدیث لائے ہیں: ’’یقول ﷺ لیہبطن اﷲ عیسیٰ ابن مریم حکما عدلا…یکسر الصلیب ویقتل الخنزیر…ولیسلکن الروحاء حاجا…الخ ! (ص۱۸۴ ج۳) آپ نے فرمایا ضرور اللہ اتارے گا عیسیٰ کو حاکم وعادل بنا کر، آپ صلیب کو توڑیں گے۔خنزیر کو قتل کردیں گے اور ضرور ضرور وہ روحاء کو جائیں گے۔ حج کے ارادہ سے (یہاں بھی نون ثقلیہ مع لام تاکید آیا ہے) اورسنئے، مستدرک حاکم میں ہے: ’’قال ﷺ لیھبطن عیسیٰ ابن مریم حکما عدلا واماما مقسطا ولیسلکن فجاحاجا اور معتمراً اولیثنینہما لیأتین قبری حتیٰ یسلم علیٰ ولاردن علیہ (ص۵۹۵ ج۲)‘‘ حضور نے فرمایا البتہ ضرور اتریں گے عیسیٰ بن مریم حاکم عادل اور امام منصف ہوکر اور البتہ ضرور جائیں گے۔ فج الروحاء کو حج یا عمرہ یا دونوں کے ارادہ سے اور البتہ ضرور آئیں گے۔ (مدینہ) میں میری قبر کے پاس یہاں تک کہ مجھے سلام کریں گے اور میں (قبر میں سے) جواب دوں گا۔ (سب فعل موکد