بعد ص۳۰۱ میں باب رافعک الیّ، رفعہ اﷲ الیہ، تعرج الملئکۃ، الیہ یصعد الکلم الطیب کالائے ہیں اور مختلف حدیثوں سے فرشتوں کلموں اور عملوں کا آسمان پر خدا کی طرف جانا ثابت کرتے ہیں۔ مثلاً
’’مثلا ولا یصعد السماء الالطیب (ص۳۰۱،۳۰۲)‘‘ عروج الملئکۃ الی السماء (ص۳۰۲) پھر یہ اس باب میں لائے ہیں۔ آمنتم من فی السماء (ص۳۰۲) اسی باب میں پہلی حدیث حضرت عیسیٰ کی بابت بھی لائے ہیں۔ ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم(ص۳۰۱)‘‘ پس انصاف کرو کہ جب مصنف کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس باب میں خصوصیت سے الی السمائ، فی السمائ، من السماء ثابت کیا جائے۔ تو یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ’’اصل بیہقی میں من السماء کا لفظ نہیں ہے۔‘‘ جیسا کہ مجاہد صاحب نے کمال تعصب سے (ص۱۵ میں) لکھ دیا ہے۔ حالانکہ امام بیہقی اس چیز کے ثابت کرنے کے درپے ہیں۔
ہٹ چھوڑئیے بس اب سر انصاف آئیے
انکار ہی رہے گا میری جان کب تلک
من السماء کا لفظ دیگر کتب حدیث میں
۱… کنزالعمال ج۷ ص۲۶۸ میں ہے قال ابن عباس قال رسول اﷲﷺ فنذ ذلک ینزل اخی عیسیٰ ابن مریم من السماء الی جبل (۱)فیق…الخ (۲)منتخب الکنز علی ہاشمی المسند الاحمد جلد ششم ص۵۶ میں ہے۔ قال رسول اﷲﷺ فعند ذلک ینزل اخی عیسیٰ بن مریم من السمائ…الخ۔ (۳)حج الکرامہ (جس کو مرزائی اکثر پیش کیا کرتے ہیں) ص۴۲۳ میں ہے۔ سمعت رسول اﷲﷺ یقول ینزل اخی عیسیٰ ابن مریم من السمائ۔
۴… محدث ابن عساکر بھی بسند اسحاق بن بشیر اپنی تاریخ میں اس حدیث کو یوں ہی لائے ہیں۔
۵ … سیوطی نے جمع الجوامع میں اس کو یوں ہی نقل کیا ہے۔
۶… ایک حدیث کا حوالہ مرزا قادیانی نے بھی یوں دیا ہے کہ’’حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اوّل ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲، وطبع حال ص۳۶ خزائن ج۱ ص۴۳۱) غالباً اس لئے مرزا قادیانی نے براہین احمدیہ میں لکھا تھا کہ: ’’حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔‘‘ (حاشیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۴۳۱) پس مجاہد صاحب کا من السماء سے انکار کرنا۔ کتب حدیث اور خود اپنے نبی کی