سیوطی صاحب تحریر کرتے ہیں۔ نزلت فی جابر وقد مات من اخوات (جلالین مصری ص۵۸) یہ ان کی بھول ہے۔ حضرت جابر عہد نبوی میں آیت کلالہ کے نزول کے وقت نہیں مرے تھے۔ بلکہ مدینہ طیبہ کے تمام صحابیوں کے بعد حجاج کے زمانہ میں مرے تھے (اصابہ) اسی طرح سیوطی سے بہت ہی غلطیاں ہر فن میں واقع ہوئی ہیں۔ تفصیل کے لئے حافظ سخاوی کی کتاب الضوء للامع دیکھنی چاہئے۔ اسی طرح ان سے حدیث بیہقی کے نقل کرنے میں تساہل ہوگیا ہوگا اور من السماء کا لفظ ان کو یاد نہ رہا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی نظر بخاری ومسلم کے متن پر ہو اور بیہقی کا نام انہوں نے بوجہ توافق لاکثر المتن کے لکھ دیا ہو، جس طرح کے خود اما م بیہقی نے حدیث مذکور نقل کرکے رواہ البخاری واخرجہ مسلم کہہ دیا ہے: ’’لانہ ربما یغزو روایتہ لبعض المحدثین اذا اخرجہا باکثر کلماتہ ولا یشترط استیعاب الفاظ الروایہ یعنی امام بیہقی نسبت کردیتے ہیں۔ حدیث کو بعض محدثوں کی طرف جبکہ اس محدث نے اس حدیث کو اس کے اکثر کلمات سے نقل کیا ہو یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس حدیث کے پورے الفاظ اس محدث نے نقل کئے ہیں: ’’فاذا قال المحدث رواہ البخاری کان مرادہ ان اصل الحدیث اخرجہ البخاری (التصریح ص۱۶)
پس جب کوئی محدث کہتا ہے کہ اس حدیث کو بخاری نے نقل کیا ہے تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس حدیث کی اصل جامع بخاری میں ہے (نہ پورے الفاظ) کمالا یخفیٰ علی من لہ ادنیٰ مسکۃ من الحدیث ولا یجہل بضیع المحدثین، جیسا کہ حدیث جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مجاہد صاحب کا یہ کہنا کہ ’’من السماء کا لفظ اصل بیہقی میں نہیں ہے۔ (ص۱۵)‘‘اس امر پر دلیل ہے کہ انہوں نے اصل کتاب (الاسماء والصفات) دیکھی ہی نہیں۔ نہ ان کو یہ معلوم کہ کتاب مذکور کی حقیقت کیا ہے۔؟ سنئے سلف میں ایک بڑا فتنہ ’’فرقہ جہمیہ ‘‘ کے نام سے اسی طرح پیدا ہوا جس طرح آج کل فتنہ مرزائیہ۔ فرقہ جہمیہ اسماء وصفات باری میں طرح طرح کی تاویلیں بلکہ تحریفیں کرتا تھا اس لئے اہل سنت نے عموماً اور محدثین کرام نے خصوصاً اس فرقہ کی تردید میں بڑی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ کتاب الاسماء والصفات البیہقی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جہمیہ کے عقائد باطلہ میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ ان اﷲ لیس فی السماء (کتاب العلو مطبوعہ مصر ۳۴۷) امام بیہقی نے اپنی کتاب مذکور میں اس کی تردید میں کئی باب منعقد کئے ہیں اور اللہ فی السماء کو بہت سی حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ ص۲۹۹ میں باب آمنتم من فی السماء کا منعقد فرماتے ہیں اور مختلف احادیث نبویہ سے مسئلہ مذکور ثابت کرتے ہیں۔ اسی کے