میں کوئی زائد معنے جس کی ضرورت بھی ہے وہ پوری حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے۔ اس اصل کو یاد رکھو اور امثلہ ذیل ملاحظہ کرو۔ صحیح بخاری میں حدیث ممانعت رفع نظر الی السماء فی الصلوٰۃ کی مطلق ہے۔ (مصری ج۱ ص۴۲۷) صحیح مسلم میں عند الدعاء زیادہ ہے (مصری ج۱ ص۱۷۱) یعنی نماز میں دعا کرنے کے وقت آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائو۔ صحیح بخاری میں ہے لخلوف فم الصائم الطیب عند اﷲ من ریح المسک (مصری ج۱ ص۲۱۳) صحیح مسلم میں یوم القیامۃ زیادہ ہے۔ (مصری ج۱ ص۴۲۷) یعنی روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے روز اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ ہوگی۔ مجاہد صاحب کے اصول سے عند الدعاء اور یوم القیامۃ شاید امام مسلم نے یا کسی ’’کاتب‘‘ نے یا ’’ہندوستانی مولوی‘‘ نے بڑھایا ہوگا؟ کیوں ٹھیک ہے نا؟ اور سنئے۔ صحیح مسلم میں ہے: ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ (مصری ج۱ ص۱۵۸) صحیح ابن خزیمہ میں علی صدرہ زیادہ ہے۔ (بلوغ المرام) راوی ایک، سند ایک، اسی طرح کی سینکڑوں مثالیں کتب حدیث سے پیش کی جاسکتی ہیں۔
لیکن آج تک کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہوا کہ یہ ’’آنحضرت پر افترائ‘‘ ہے یا ’’کسی مولوی یا کاتب‘‘ نے بڑھا دیا ہے یا ’’کسی کی مہربانی کا نتیجہ ہے یا ’’یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح بدلا گیا ہے۔‘‘ جیسا کہ مجاہد صاحب نے زیادت من السماء پر ژاژخائی فرمائی ہے۔ یہ سب فن حدیث اصول سے جہالت اور بیگانگی کا نتیجہ اور باطل مذہب کی پاسداری اور تعصب کا کرشمہ ہے۔
نہیں معلوم تم کو ماجرائے دل کی کیفیت
سنائیں گے تمہیں ہم ایک دن یہ داستان پھر بھی
حدیث بیہقی
ہم نے فہرست میں حدیث ینزل من السماء درج کی تھی اس میں نہ بیہقی کا نام لیا تھا نہ بیہقی میں ینزل ہے لیکن ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ مجاہد صاحب کو حدیث بیہقی کا ہی خیال گزرا اور لکھ مارا ’’ان الفاظ کو امام بیہقی کی کتاب اسماء والصفات سے پیش کیا جاتا ہے۔ (ص۱۴)‘‘ ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔آگے تحریر فرماتے ہیں۔سیوطی نے… بیہقی کے حوالے سے اس حدیث کو اپنی کتاب (تفسیر درمنثور)میں درج کیا مگر من السماء کا لفظ نہیں لکھا (تا) اصل بیہقی میں نہیں ہے۔(ص۱۵)‘‘ سیوطی کا تساہل اور زلت قسم مشہور ہے۔ تفسیر جلالین میں بحوالہ صحیح مسلم حدیث ’’ابدؤ ما بدٔ اﷲ بہ‘‘ بصیغہ امر نقل کرکے سعی کی فرضیت ثابت کرتے ہیں۔ (مصری ص۱۴) حالانکہ صحیح مسلم میں اس طرح (بصیغہ امر) نہیں ہے۔ اسی طرح آیت کلالہ کے بارے میں