صحیفۃ من التوراۃ لو کان موسیٰ حیا لما وسعہ الا اتباعی آھ (ج۱ ص۱۰۶) یہاں تو صاف صاف بجائے عیسیٰ کے موسیٰ موجود ہے۔ استنبول میں تو کوئی ’’ہندوستانی مولوی صاحب‘‘ موجود نہ تھے اور ۱۳۰۹ھ میں وہاں مرزا قادیانی کا کسی کو پتہ بھی نہ تھا کہ ضد ومخالفت کا شبہ ہو۔ پس ملا علی قاری نے جس طرح شرح شفاء میں حدیث لو کان موسیٰ حیاً تحریر کی تھی اسی طرح شرح فقہ اکبر میں بھی تحریر کی اور اسی صورت میں وہ حدیث دعوائے نزول مسیح کی دلیل ہوسکتی ہے۔۔ لہٰذا شرح فقہ اکبر کے تمام ہندی نسخے صحیح ہیں اور مصری نسخہ غلط ومحرف ومبدل ہے۔
آج دعویٰ ان کی یکتائی کا باطل ہوگیا
رو برو ان کے جو آئینہ مقابل ہوگیا
محدثین کا طرز عمل
یہ شبہ محض جہالت کا نتیجہ ہے کہ فلاں محدث نے اس لفظ کو متن حدیث میں ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ مجاہد صاحب نے پیش کیا ہے کہ ’’امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، سیوطی نے حدیث نزول عیسیٰ میں من السماء کا لفظ درج نہیں کیا۔ اس لئے یہ لفظ آج کل بڑھا دیا گیا ہے۔ (ص۱۵)‘‘ جن لوگوں کو فن حدیث میں ادنیٰ مسکہ بھی ہے ان سے پوشیدہ نہیں کہ محدثین کی حالتیں اور غرضیں بیان حدیث کے وقت مختلف ہوتی ہیں۔ حالتوں کی بابت امام مسلم مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’کانت لہم تارات یرسلون فیہا الحدیث وتارات ینشطون فیہا…الخ‘‘ (مطباعہ مصر ص۲۰)یعنی رواہ حدیث کبھی حالت غیر نشاط میں ہوتے ہیں تو حدیث سے کچھ چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی نشاط میں ہوتے ہیں تو سب کچھ بیان کردیتے ہیں۔ نیز فرماتے ہیں: مذہبہم فی قبول ما یتفردبہ المحدث من الحدیث ان یکون قد شارک التقات من اہل الحفظ فی بعض مارو او امعن فی ذلک علیٰ الموافقۃ لہم فاذا وجد کذلک ثم زاد بعد ذلک شیئاً لیس عند اصحابہ قبلت زیادتہ (مطبوعہ مصر ص۴) لان المعنی الزائد فی الحدیث المحتاج الیہ یقوم مقام حدیث تام (ص۳) یعنی کوئی محدث حدیث کے کسی لفظ (مثلاً من السمائ) کے بیان کرنے میں متفرد ہے تو اس کی قبولیت کے بارے میں محدثین کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس محدث کی مشارکت ثقہ حافظین کی بعض روایت (متن) میں ثابت ہوا اور وہ دیگر رواۃ حدیث کی۔
موافقت میں کوشش بھی کرتا ہو، پھر اگر اس کے بیان کردہ متن میں کوئی لفظ زیادہ مذکور ہے۔ (جیسے بیہقی میں من السماء کی زیادتی) تو اس کی یہ زیادتی مقبول ہوگی۔ اس لئے کہ حدیث