ہے۔ اس لئے اس کا ہم اسی طرح یقین رکھتے ہیں۔ اپنے قیاس سے کچھ نہیں کہتے۔ اور نہ واقعات میں قیاس کا دخل ہوتا ہے۔
کف قوم وکف ید
مجاہد صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’یہی فعل کف مسلمانوں کے حق میں بھی استعمال ہوا ہے… فعجل لکم ہذہ وکف ایدی الناس عنکم (فتح:۲۰) کیا مخالف لوگ مسلمانوں کے پاس بھی نہ پھٹکے تھے؟ (ص۱۱)‘‘ مجاہد صاحب نے غور نہ کیا کہ یہاں کف فعل کا مفعول ایدی (ہاتھ) ہے اور آیت ما نحن فیہا میں کففت کا مفعول قوم بنی اسرائیل ہے۔ صلہ دونوں جگہوں میں عن آیا ہے۔ پس کف بنی اسرائیل عن المسیح تو یہ ہوا کہ قوم یہود حضرت مسیح کے پاس نہ پھٹکے دور دور رہے اور کف ایدی عن المسلمین یہ ہے کہ لڑائی نہ ہو، قتال دور رہے۔ خواہ مخالف پاس بھی آجائیں۔ جس کو سورہ مائدہ میں یوں فرمایا ہے۔ اذہم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیہم فکف ایدیہم عنکم (مائدۃ:۱۱) یعنی یہود بنی النفیر نے مسلمانوں پر دست درازی کرنی چاہی۔ اللہ نے ان کے ہاتھ کو دور رکھا یعنی قتال نہ ہونے دیا۔ یہود مسلمانوں کو قتل نہ کرسکے۔ کف ید کی تفسیر قرآن خود یوں کرتا ہے۔ کیف بأس الذین کفروا (نسائ:۸۴) یعنی کافروں کی جنگ کو خدا روک دے۔ جنگ وقتال پاس نہ پھٹکے۔ پس کف قوم وکف ید میں دقیق فرق ہے۔ گو مآل دونوں کا (شر اعداء سے محفوظ رہنا) واحد ہے فافہم!
نتیجہ
مجاہد صاحب آخر میں لکھتے ہیں ’’اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اب تک آسمان پر اس جسم کے ساتھ زندہ موجود ہیں۔ (۱۲)‘‘ جب اس آیت سے یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ یہود کے ہاتھ سے حضرت عیسیٰ صلیب پر نہیں چڑھائے گئے کیونکہ وہ آپ کے پاس بھی نہ پھٹک سکے تو مسیح علیہ السلام آخر کہاں گئے؟ اور کیا ہوئے؟ اس کو بل رفعہ اﷲ الیہ سے واضح فرما دیا۔ جس سے ان کا اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمانوں پر جانا ثابت ہوگیا کما بنّتہ مراراً!
مجاہد کا میدان سے فرار
حیات مسیح کے دلائل میں فہرست میں ۱۴ عدد آیات قرانیہ پیش کی گئی تھیں، جن میں سے صرف چھ آیتوں کے متعلق مجاہد صاحب نے اپنا قلمی جہاد جیسا بھی ہوسکا اپنی جماعت میں لاج رکھنے کو پیش کیا۔ باقی آٹھ آیتوں کی بابت اعداد بڑھانے کا ’’بہانہ کرکے میدان چھوڑ کر بھاگ