(ذاریات:۲۲) لہٰذا تمام آیات مسبب کے سبب کو آسمان سے ہی اترنا ثابت کرتی ہیں۔ وہو المراد!
مجاہد صاحب کا ایک عجیب دجل ملاحظہ ہو لکھتے ہیں کہ ’’احادیث میں نزول اترنے کا لفظ دجال کے لئے بھی آیا ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ دجال بھی زندہ ہے…الخ! (ص۱۴)‘‘ ہاں صاحب دجال بھی زندہ ہے۔ حدیث تمیم داری صحیح مسلم میں ملاحظہ ہو اور سنئے شیطان بھی زندہ ہے اور وہ بھی جنت سے اتاراگیا تھا۔ پس دجال کے لئے اگر لفظ فینزل بعض السباخ (صحیح بخاری پ۲۹) حدیث میں آیا ہے تو آپ کو کیوں قراقر ہوگیا حدیث بیہقی میں اس کی سواری کا بھی تو ذکر موجود ہیں عن ابی ہریرۃ عن النبیﷺ قال یخرج الدجال علیٰ حمارٍ…الخ! (مشکوٰۃ ص۴۶۹) یعنی دجال گدھے کی سواری پر چلے گا۔ اور اسی سواری سے وہ اترے گا۔ کیونکہ نزول کے معنے ہی ہیں اوپر سے نیچے اترنا کما ہو اسی معنے میں معلقہ امری لقیس کا شعر عقرت بعیری یا امری القیس فانزل ’’جواب دعوت‘‘ کے ص۱۲ پر پہلے ہی لکھا جاچکا ہے‘ جس میں پشت شتر سے زمین پر اترنا مذکور ہے۔ اسی طرح پشت خرسے دجال بھی سباخ (ارض مدینہ) پر اترے گا۔ افسوس آپ کی عقل وخرد پر۔ ؎
الٹی سمجھ کسی کو بھی ایسی خدا نہ دے
دے آدمی کو موت پہ یہ بد ادا نہ دے
جواب دلیل نمبر۷
ہماری فہرست میں یہ دلیل نمبر۱۸ تھی، مجاہد صاحب نے اسے ’’ساتویں دلیل‘‘ بنا دیا۔ ’’لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈالنا اسی کو کہتے ہیں۔ (ص۱۴)‘‘پھر مجاہد صاحب کو ’’خدا کا غضب‘‘ یاد نہ آیا کہ رسول پاکﷺ کی فرمودہ حدیث سے انکار کربیٹھے اور اپنے پیر مغان متنبی کی سنت پر عمل کیا کہ ’’حدیثوں کو ہم روی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔(اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰)‘‘ ’’فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ اویصیبہم عذاب الیم (نور:۶۳)‘‘کسی بے باکی اور ڈھٹائی سے لکھتے ہیں۔ ’’من السماء کے الفاظ رسول پاکﷺ کے فرمائے ہوئے ہرگز نہیں ہیں۔ (تا) کسی مولوی صاحب نے یا کسی کاتب نے من السماء کا لفظ اپنے پاس سے لکھ دیا ہے۔ (ص۱۴،۱۵)‘‘ ’’کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم‘‘ جو چیز آپ کے مطلب کی ہو اس کو تو آپ لوگ آنحضرتﷺ کی طرف انتساب کردیں اور جان بوجھ کر حضرت پر جھوٹ وافتراء کریں جس طرح جناب مرزا قادیانی نے چشمہ معرفت میں لکھ دیا ہے کہ: ’’جو نشانیاں زمانہ مہدی معہود کی آنحضرتﷺ نے مقرر کی تھیں۔ اس کے زمانہ میں کسوف