’’یحکم بہا النّبییون (مائدہ:۴۴)‘‘ یہ انبیاء مابین موسیٰ وعیسیٰ ہیں جن میں یحییٰ، زکریا بھی ہیں۔ قسم اول دوم کے پیغمبروں کے برخلاف دشمن اپنی تدبیروں میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کا قتل شریعت ورسالت میں شبہ ڈالتا ہے‘ بخلاف تیسری جماعت کے ان کا قتل کتاب وشریعت میں خلل انداز نہیں ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یحییٰ علیہ السلام کو جام شہادت پی لینے دیا اور عیسیٰ علیہ السلام چونکہ صاحب شرع رسول ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ان کے پاس بھی پھٹکنے نہ دیا اور چونکہ یہود دعوائے قتل مسیح جزم ومفاخرت کرتے تھے اور کہتے تھے انا قتلنا المسیح یعنی یقینا ہم نے مسیح کو قتل کردیا۔ یہود کے زعم میں قتل محل خاص میں واقع ہوا، اسی لئے مفعول المسیح کو موصوف ذکر کیا اور عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲﷺ اس کی صفت ۔ پس اللہ نے ان کے فخر اور لاف زنی کی تردید وتکذیب ما قتلوہ وما صلبوہ سے کی اور ان کے جزم کا ابطال وما قتلوہ یقینا سے فرمایا اور حقیقت امر کو ولکن شبہ لہم اور بل رفعہ اﷲ الیہ سے کھول دیا۔ لہٰذا مجاہد صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’دونوں کے قتل کرنے کی نوعیت میں فرق تھا۔(ص۱۱)‘‘ محض مہمل اور نتیجہ جہالت ہے۔ یہود ایسے ہی قول کی وجہ سے ملعون قرار پائے۔ اور آج جو مسیح کا صلیب پر چڑھایا جانا مانے اس کا بھی یہی حکم ہے۔
تاریخی امور میں قیاس
مجاہد صاحب امرواقع شدہ میں بھی قیاس کو دخل دیتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں کہ ’’تمام نبیوں کو تکلیفیں پہنچیں سخت سے سخت مصائب کا سامنا ہوا، حتیٰ کہ حبیب خداﷺ پر بھی کئی دفعہ جان جوکھوں کے معاملے آئے اور خدا نے نہ روکا مگر عیسیٰ کے…پاس یہودیوں کا پھٹکنا بھی گوارا نہ ہوا…الخ! (ص۱۲)‘‘ اجی حضرت! وقائع اور امور تاریخیہ میں قیاس کو بالکل دخل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ وقوع حوادث کی صورت واحد نہیں ہوا کرتی، کہ تمام انبیاء کے واقعات کو ہم رنگ سمجھ لیا جائے۔ اس لئے کہ صورت نجات ایک ہی طریق میں منحصر نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین اسلام سماعی ہے۔ قیاسی نہیں ہے‘ جو امر جس طرح قرآن وحدیث میں وارد ہے۔، اسے اسی طرح ماننا اسلام ہے‘ نہ کہ اس میں اپنے قیاسات سخفیہ کو دخل دینا۔ قرآن مجید میں چونکہ حضرت ابراہیم کا آگ میں ڈالا جانا اور پھر سلامت رہنا مذکور ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے بحر قلزم میں راستہ بن جانا (جس کو آپ نے ص۱۱ میں پایاب ہوجانا غلط لکھا ہے۔) قرآن حکیم ہی بیان کرتا ہے۔ آنحضرتﷺ کا غار ثور میں امن پانا قرآن کریم ہی بتلاتا ہے۔ اس لئے ان واقعات کو ہم اسی طرح مانتے ہیں اور چونکہ حضرت عیسیٰ کا صلیب پر نہ چڑھایا جانا اور یہودیوں کا آپ تک نہ پھٹکنا قرآن پاک میں صاف صاف آیا