صاحب نے ترجمہ فرمایا ہے۔ ’’عیسیٰ نشان است قیامت را‘‘اور شاہ رفیع الدین صاحب نے ’’علامت قیامت‘‘ ترجمہ کیا ہے اور شاہ عبدالقادر صاحب نے بھی ’’نشان ہے‘‘ ترجمہ لکھا ہے۔ مجاہد صاحب نے نمبر۱ میں لکھا ہے: ’’یہ ترجمہ سراسر غلط ہے: (ص۱۰)‘‘ گویا یہ سب مترجمین لغت عرب سے نا آشنا تھے تو کیوں نہ اپنی معتبر لغت کی کتاب لسان العرب کو (جس کو ص۵ میں تمام عربی لغات سے اعلیٰ وافضل مانا ہے) یہاں پر کھول کر دیکھ لیا۔ علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: ’’وانہ لعلم للساعۃ وہی قرأۃ اکثر القرائ… المعنی ان ظہور عیسیٰ ونزولہ الیٰ الارض علامۃ تدل علیٰ اقتراب الساعۃ(لسان العرب ج۱۵ ص۳۱۴)‘‘ اسی سے آپ کے تینوں نمبروں کا جواب ہوگیا تیسرے نمبر میں آپ نے انہ کی ضمیر میں اختلاف بتایا ہے۔ لسان العرب سے فیصلہ ہوگیا کہ ضمیر عیسیٰ کی طرف راجع ہے‘ پہلے نمبر کا جواب بھی ہوگیا کہ علم کے معنی علامت (نشان) ہیں دوسرے نمبر کا فیصلہ بھی ہوگیا کہ ساعت سے مراد قیامت ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کا نزول قرب قیامت ہی ہوگا۔
فرمائیے اس ’’اعلیٰ وافضل‘‘ لغت کی کتاب کا فیصلہ آپ کو منظور ہے نا؟ یا ’’میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ علم سے نشان مراد ہونے کی وجہ سے بھی سن لیجئے امام رازی فرماتے ہیں: سمی الشرط الدال علی الشیء علماء لحصول العلم بہ (تفسیر کبیر ج۷) چونکہ نشان مقصود پر دلالت کرتا ہے۔ اور اس سے اس کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے اس کو بھی علم بولتے ہیں۔ دوسرے نمبر میں ساعت کے معنے پر جو کلام کیا ہے یہ اس لئے کہ آپ لوگوں کو قیامت پر یقین نہیں ہے۔ ورنہ اتنی جرأت وجسارت چہ معنے دارد؟ آپ کو اختیار ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں ساعت سے قیامت مراد لی گئی ہے آپ اسے قوم کی تباہی‘‘ کے معنے میں لے لیں۔ کوئی آپ کا کیا بگاڑے گا اصل یہ ہے کہ جب ایمان کمزور ہوجاتا ہے توفاسد العقیدہ طبائع ایسے ہی حیلے اور بہانے پیدا کرلیتی ہیں۔ ورنہ جب ذات سرور کائنات علیہ التحیات کا وجود علامات قیامت سے ہے تو شق القمر کا اعجاز کیوں نہ نشانات قیامت سے ہوگا؟ اسی لئے شاہ ولی اللہ صاحب وشاہ رفیع الدین صاحب نے اقتربت الساعۃ کا ترجمہ ’’نزدیک آمد قیامت‘‘ اور ’’نزدیک آئی قیامت‘‘ کیا ہے۔ آپ قیامت سے پڑے انکار کیا کریں آپ کا انکار مانع قیامت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں آپ کے مرزا قادیانی نے آیت مذکورہ انہ لعلم اللساعۃ کی تفسیر میں لکھا ہے یکون آیاۃ لہم علی وجوہ القیامۃ (حمامۃ البشریٰ ص۹۰، خزائن ۷ ص۳۱۶) مرزا قادیانی نے خود ساعت کے معنے قیامت کے کئے ہیں۔ تیسرے نمبر میں لکھتے ہیں ’’انہ کی ضمیر میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے۔(ص۱۰)‘‘ کوئی وجود باری